گھر ونج ، گیا نئیں؟

گھر ونج ، گیا نئیں؟

جیآ، جیآ ،جیآ نئیں!

مختصر اور بلیغ مصرعوں کے شاعر ظہیر مہاروی کی ایک سرائیکی غزل آج کل سوشل میڈیا کا عنوان بنی ہوئی ہے- وٹس ایپ سے لے کر ٹک ٹاک تک اس کا شہرہ ہے- ناقدین کی ایک جماعت اس پہ طنز کر رہی ہے تو ایک بڑی تعداد اسے پسند بھی کر رہی ہے- یوں آئے دن اس کا ایک ایک مصرعہ شہرت پکڑ رہا ہے-

کچھ دوستوں نے جو سرائیکی سے کلی واقفیّت نہیں رکھتے ، ہم سے فرمائش کی کہ اس غزل کے معنی و مطالب سے ہمیں آگاہ کیا جائے- چونکہ اعوان قبیلے کی بولی اور سرائیکی میں قدرے مماثلت ہے تو جس قدر سمجھ میں آئی ، پیش خدمت ہے- غلطی کا امکان بہرحال موجود ہے-

گھر ونج ، گیا نئیں؟

جیا جیا ،جیا نئیں!

یہ مصرعہ دو جملوں پہ مشتمل ہے- پہلےحُکم ہے کہ “گھر جاؤ!” اور ساتھ ہی یہ استفہام ہے کہ ابھی تک گئے نہیں؟ ظاہر ہے ایسا حکم محبوب ہی دے سکتا ہے یا پھر مرشد-

دوسرا مصرعہ اس کا جواب ہے اور یہ بھی دو جملوں پہ مشتمل ہے- مصرعے سے جھلکتی عاجزی اور فروتنی بتلا رہی ہے کہ حکم کس درجے کا ہے- چونکہ “ناں” کہنے کا بھی حوصلہ نہیں سو “جی جی” پہ ہی تکیہ کیا ہے- پھر لاچارگی کی عمدہ مثال ہے کہ:

جیا نئیں !

یعنی

“جی ہاں ….. نہیں !”

اس شعر سے مجھے ایک ملٹری ڈرامے کا سین یاد آ گیا- ایک افسر کسی سپاہی کو خوب جھڑک چکنے کے بعد کہتا ہے ، آر یو میڈ؟

وہ پزل سا ہو کر کہتا ہے ” سر سر سر” اس پر باس کہتا ہے “دئیر از ٹو مچ ڈفرنس بٹوین سر سر اینڈ یس سر !

طاقتور کے سامنے، کمزور کا پزل ہونا بھی عاجزی ہی شمار ہوتا ہے- نہ ہاں کہنے کا حوصلہ نہ انکار کی گنجائش- یہ شعر عقیدت میں گندھی ان دیسی روایات کو ظاہر کرتا ہے جو کسی بڑے کے سامنے ایک کمزور کی پہچان ہیں-

میں آکھا، اوہا اے

اے تاں کوئی بیا نئیں

“میں نے کہا ، وہی ہے- یہ تو کوئی اور نہیں؟”

اس شعر کے دو مطالب ہیں- بظاہر تو نظر کے اس دھوکے کی بات ہو رہی ہے جو عاشق ہمیشہ سے کھاتا آیا ہے- یعنی ہر چہرے میں یار کی صورت نظر آنا- جیسا کہ احمد ندیم قاسمی نے کہا:

انداز ہو بہو ، تیری آوازِ پا کا تھا

باہر نکل کے دیکھا تو جھونکا ہوا کا تھا

محبوب کی طوطا چشمی کی جانب بھی اشارہ ہو سکتا ہے کہ قد کاٹھ تو وہی ہے ، لیکن چال ڈھال کچھ بدلی سی نظر آ رہی ہے-

دل کتھے ڈیونڑائیں

تیڈے کولو پیا نئیں

“دل ہم نے کہاں دینا ہے؟ آپ کے پاس ہی نہیں رکھا ہوا؟”

اس شعر میں عاشق اپنی محبت کا بڑے ہی دوٹوک اور مختصر انداز میں اظہار کرتا ہے کہ اب ہم نے مزید کس کو دل دینا ہے؟ ایک ہی تو تھا جو آج کل آپ کے پاس رکھا ہوا ہے-

بھاء لگا عشق اے

ورف آلا ٹھیا نئیں

“عشق بھڑکتا ہوا آگ کا شعلہ ہے ، کوئی برف والا خوانچہ نہیں”

اس شعر میں دو استعارے انتہائی دلچسپ ہیں- ایک “بھاء لگا” اور دوسرا ” ورف آلا ٹھیّا”

“بھا لگا” کسی چیز کو کوسنے کےلیے بھی استعمال ہوتا ہے اور جگر میں لگی آگ کےلیے بھی- اس ذومعنویت نے شعر میں جان پیدا کر دی ہے- دوسرا استعارہ اس سے بھی دلچسپ ہے اور پس ماندگی کی طرف اشارہ کرتا ہے- دیہات میں جہاں فریج کی سہولت نہیں ہوتی، آج بھی برف والے خوانچے پہ خوب رونق نظر آتی ہے-

تیڈا ہک یار ہا

کڈاں دا ڈسیا نئیں

“تمہارا ایک دوست تھا- کئی روز سے نظر نہیں آیا؟ “

اس شعر کو پڑھنے سے زیادہ سننے میں لطف ہے- عاشق نے بڑے ہی لطیف بلکہ “میسنے” انداز میں محبوب کو طعنہ دیا ہے جس میں دل کا درد بھی عیاں ہے اور فکر بھی- “بھئی آپ کا ایک دوست تھا ، وہ کیا ہوا؟

اس شعر میں محبوب کےلیے دبے لفظوں میں ایک پیغام بھی ہے کہ ہمارا حوصلہ دیکھ آج بھی تیری ہی فکر کرتے ہیں ورنہ تیرے ساتھ چلنا کوئی آسان ہے؟ سچے عاشق کے سوا محبوب کے نخرے بھلا کون اٹھا سکتا ہے؟

جِیا، سوکھا عشق اے

حالے تیکوں تھیا نئیں

“ہاں جی ، عشق بڑا آسان ہے- شاید ابھی تک آپ کو ہوا نہیں”

“جیا” کا لفظ اس شعر کی جان ہے- صرف “ہاں جی” لکھنے سے اس کے معنی و مطالب پوری طرح عیاں نہیں ہوتے- سرائیکی میں کبھی کبھار “جیا” دوسرے کی کم فہمی پہ اظہارِ تاسف کےلیے بھی استعمال ہوتا ہے-

اس شعر میں عشق کو محض “دل لگی” سمجھنے والوں کی کی کوتاہ فہمی پہ افسوس کا اظہار کیا گیا ہے-

اساں تساں ہوندے آں

دل سنی شیعہ نئیں

” ہم اور آپ ہیں بس- دل نہ شیعہ ہیں نہ سنّی”

بظاہر یہ شعر باقی غزل سے بلکل الگ لگتا ہے اور اس میں مذہبی تقسیم کی نفی ہے اور رشتہِ انسانیت کا اثبات کیا گیا ہے- اصل مفہوم یہ ہے کہ عشق کو دنیاوی قوانین اور ضابطوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں- یہ ان سب سے ماورا دو دھڑکتے دلوں کا نام ہے-

جیندا وی او بنڑیں ہُنڑ

ساڈے توں تاں گیا نئیں

“اب وہ جس کا بھی ہو جائے ، ہمارا تو نہیں رہا ناں؟”

یہ حاصل کلام شعر ہے- شعرا کا عمومی مزاج یہ ہوتا ہے کہ محبوب کی بیوفائی کے بعد تادیر اسے کوستے رہتے ہیں- اس شعر میں یہ سبق دیا گیا ہے کہ جب وہ کسی اور کا ہو گیا ، تو تعلق بھی ختم ہو گیا- اب اس کا ذکر کرنے اور جی سوختہ کرنے کا فائدہ ؟

دراصل زبان و بیان اور لہجے سے کلی واقفیت کے بغیر “ساڈے توں تاں گیا نئیں” کا مفہوم سمجھ نہیں آ سکتا- یہ

Introgative plus Confirmative statement

ہے- قریب ترین اردو ترجمہ ہو گا:

” بھئی وہ اب جس کا بھی ہو جائے ، ہماری زندگی سے تو نکل گیا ناں؟ “

لگدا…………. ظہیر اے

ڈیکھ ڈیکھاں ایہا نئیں

لگتا تو ظہیر ہے- اجی دیکھیے ! کہیں وہی تو نہیں؟

اس شعر کو “ڈیکھ ڈیکھاں” نے بامِ عروج پہ پہنچا دیا ہے- اردو میں لفظ “دیکھ” اور سرائکی میں ڈیکھ مخاطب کو متوجہ کرنے کےلیے استعمال ہوتا ہے- اس کے ساتھ جو ڈیکھاں لگایا گیا ہے، ہم اسے ایکھاں بولتے ہیں- مطلب “ذرا دیکھنا”- مزید لطف کی بات یہ کہ اشارے کےلیے “اوہا” (وہی) کی بجائے “ایہا” (یہی) استعمال کیا گیا ہے جو محبوب کی بے نیازی کو ظاہر کرتا ہے-

مفہوم یہ ہے کہ عاشق کی حالت کچھ ایسی ہو چکی ہے کہ محبوب کو اسے پہچاننے کےلیے بھی کسی اور سے مدد لینا پڑ رہی ہے اور وہ کہتا ہے “یہی ہے ناں ظہیر؟”

حالانکہ یہ وہی ظالم ہے جو اس عاشق کو دیکھ کبھی نعرہ لگایا کرتا تھا:

دیکھو دیکھو کون آیا

شیر آیا ….. شیر آیا

ظفری جی کی تفسیر عشق

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Twitter picture

You are commenting using your Twitter account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s