میں نے اپنے ننھے مانجھی کو پہلی بار چھوٹی گھونگھے جیسی کشتی کے پاس جون 1938ء کی ایک سہ پہر کو دیکھا۔ دریا اپنے پاٹ میں چار دریائوں ستلج، سندھ، جہلم اور راوی کے پانی لیے، بل کھاتی اور پھنکارتی موجوں اور بھنوروں کا سمندر ہو رہا تھا۔ جہاں تک نظر جاتی تھی، پانی ہی پانی اور تم پرلا کنارہ نہیں دیکھ سکتے تھے۔ چھوٹی دم کٹی سی ریل نے ایک گھنٹا پہلے مجھے گنبدوں اور کھجوروں والے ٹرمینس ریلوے اسٹیشن پر اتارا تھا اور میں وہاں سے اپنا تھیلا کندھے پر رکھے اور ایک سوٹ کیس اٹھائے ایک دیہاتی باتونی لڑکے کی راہنمائی میں ریلوے لائن کی پٹڑی پر چلتا ہوا (کیونکہ اردگرد طغیانی کی وجہ سے پانی تھا اور پٹڑی ہی سب سے اونچی جگہ تھی) پی ڈبلیو ڈی کی فیری لانچ کو پکڑنے دریا کے کنارے پہنچا تھا۔ میری بدقسمتی کہ میں فیری لانچ کو نہ پکڑ سکا۔ ابھی ہم پتن سے دو فرلانگ دور تھے کہ کنارے سے ایک ہانک سنائی دی اور ایک سبز اور سفید مکان نما چیز حرکت کرتی نظر آئی۔
’’سائیں!‘‘ الجھے ہوئے بالوں والے دیہاتی لڑکے نے، جس کا نام گامن تھا، کہا ’’بیڑی ویندی پئی اے۔ تساں ہُن کل فجر ای وَنج سکدے او۔ ‘‘
میں نے خواہ مخواہ غصے میں سارا الزام اس پر دھرا کہ اس نے اپنی باتوں میں مجھے دیر کرا دی ورنہ میں فیری کو پکڑ لیتا۔ ہم کنارے پہنچے۔ فیری لانچ اب کافی دور جا چکی تھی۔ میں اس کے انجنوں کی چگ چگ کی آواز سن سکتا تھا۔ مچھیروں کی مستولوں والی دو تین کشتیاں سورج میں چمکتے پانیوں پر اچھل رہی تھیں اور ٹوکریاں بننے والے خانہ بدوش اپنی سرکنڈوں کی جھونپڑیوں میں کنارے پر پڑائو ڈالے بیٹھے تھے۔ موسم زدہ جھرّیوں والے بوڑھے اور چمکیلے سیاہ جسموں والے بے پروا نوجوان اور رنگ دار پھٹی ہوئی چھینٹ کے گھگھروں میں صحت مند جسموں اور کھرے پیتل کی سی رنگت والی عورتیں، جن کو دیکھنے سے دل میں گویا ایک پھانس سی اٹک جاتی تھی اور لاتعداد الجھے ہوئے بالوں والے چھوٹے بچے جو اپنے بڑوں کی مصروفیات اور دھندوں سے بے خبر، شور مچاتے، پانی میں کھیل رہے تھے۔
مجھے اس شام اپنے دریائی چچا احمد یار کے پاس پہنچنا تھا۔ اس گھر میں سب میرا انتظار کر رہے ہوں گے۔ میں واپس اس سبزگنبدوں اور کھجور کے جھنڈوں والے گائوں چاچڑاں میں رات بسر کرنے نہیں جانا چاہتا تھا۔ مگر فیری لانچ جا چکی تھی اور دریا کے دوسرے کنارے پر جانے کی کوئی صورت نہ تھی۔
’’سائیاں! ‘‘ گامن نے کہا ’’رات اساڈے گھر رہو۔ تساڈی خدمت کریساں تے مٹھ مروڑے دیساں۔ میرا بابا فرید سائیں دیاں کافیاں خوب لَے نال گاندا اے۔ تے ساڈی ہک بکری اے۔ سائیں کوں اودا کھیر پویساں۔ ڈھاڈا مٹھا اے۔ فجر ہن ٹال میں سائیں کوں بیڑی تے چڑھا دیساں۔ ‘‘
میں نے مستولوں والی کشتی کے ایک لمبی مونچھوں اور پٹوں والے بوڑھے مچھیرے سے دریافت کیا کہ آیا وہ مجھے دوسرے کنارے پر مِٹھن کوٹ لے جائے گا۔ اس نے اپنا سر ہلایا اور دریا کے سمت اشارہ کیا جو اپنی ناچتی شوریدہ لہروں سے واقعی خطرناک اور جان لیوا نظر آرہا تھا۔ اس نے کہا ’’پندھ بھی بہت زیادہ ہے اور ہوا اُلٹے رخ کی ہے۔ اس وقت کوئی تمھیں مٹھن کوٹ نہیں لے جائے گا۔ ‘‘
میں مایوس ہو گیا۔ میرے چچا نے میرے آنے کی خوشی میں اپنی ضرب المثل دریا دلی سے بڑا تکلف کر رکھا ہو گا اور اسے مایوسی ہو گی۔
تب میں نے اپنے ننھے ما نجھی کو دیکھا۔
وہ اپنی اچھلتی ہوئی گھونگھے نما کشتی کے پاس ایک لمبا بانس لیے کھڑا تھا۔ بمشکل بارہ تیرہ برس کا لڑکا،صرف لنگوٹی پہنے، اس کے بال گھنے گھنگھریالے اوربدن چمکیلا،لچکیلا اور سنہری تھا۔ وہ اپنے بانس کے ساتھ ایسی بے پروائی اور ایسے بانکپن سے کھڑا تھا جیسے وہ ایک چھوٹا سا دیوتا ہو۔ اس کی آنکھوں میں دلیری اور خوداعتمادی تھی اور اس کا چہرہ خوبصورت اور مسکراتا ہوا تھا۔ جنگلوں، دریائوں اور کھلے خطوں کی ایک مخلوق!
ایک لحظے کے لیے میں نے تاسف سے اپنے ناقص خوراک پر پلے ہوئے، پلپلے، توندیلے، آرام کے عادی جسم کے بارے میں سوچا۔ شہروں میں رہتے ہوئے، انسان نے خود کو غالباً خدا کی بدصورت ترین مخلوق بنا لیا تھا۔ آہ! یہ تہذیب کی نت نئی بڑھتی ہوئی آسائشیں! شہری آدمی کو آخر کس بات کا ناز تھا؟
ننھے مانجھی نے خود یہ مجھ سے پوچھا ’’سائیاں، پار جا سیں؟‘‘
’’تمھاری کشتی کمزور ہے۔ یہ ڈوب جائے گی چھوٹے لڑکے۔ ‘‘ میں نے کہا۔
وہ ہنسا۔ اس کی ہنسی لوک گیتوں کا سُر تھی۔ اس کے موتیوں کی لڑی جیسے سفید دانت چمکے۔ اپنے تمباکو سے میلے کچیلے پیلے دانتوں کا سوچ کر حسرت کی چھری سی میری سینے میں اتر گئی۔
’’واہ سائیاں واہ!‘‘ وہ بولا ’’میری بیڑی نہیں بُڈدی۔ ایہہ پانی دی مچھلی اے۔ دریا دی چھل تے اُتوں پکھی وانگوں اُڈ جاندی اے۔ ‘‘
اس نے بتایا کہ وہ ہر روز پرلے ساحل سے مچھلیاں پکڑتے پکڑتے اس کشتی میں یہاں آتا ہے اور سرِ شام لوٹتا ہے۔
’’دریا میرا گھر ہے‘‘ اس نے سادگی سے کہا ’’سائیاں میں دریا وچ پڑھیا ہویا آں۔ دریا میرا سنگتی ہے۔ وہ میری اور میری کشتی کی حفاظت کرتا ہے۔ ‘‘
ایک جنگلی وحشی لڑکے سے اتنی عقل کی باتیں سن کر میں حیران رہ گیا۔ کس نے اس کو یہ باتیں سکھائی تھیں؟
’’تم اسکول میں پڑھتے ہو؟‘‘ میں نے پوچھا… یہ سوچتے ہوئے کہ ایسی دانائی صرف اسکول میں سیکھی جا سکتی ہے، یہ بھولتے ہوئے کہ مادرِ فطرت خود بہترین اُستاد ہے۔
وہ پھر ہنسا اور اس کے جواب نے مجھے حیران کر دیا ’’میرا اسکول، سائیاں! زمین ہے اور دریا ہے۔ ‘‘
گامن مجھ سے چمٹا ہوا تھا۔ وہ کبھی میرے کوٹ کو اور کبھی میرے بازوئوں کو کھینچتا۔ وہ خلوص سے چاہتا تھا کہ میں اس کے ساتھ شہر میں اس کے کچے مکان میں رات گزاروں، اس کی بکری کا تازہ سجرا دودھ پیوں اور اس کے بابا سے فرید کی کافیاں سنوں۔
’’سائیاں! دریا ایک دم خطرناک ہے۔ میرے ساتھ آئو…‘‘ گامن بولا۔
اس پر ننھا مانجھی زور سے ہنسا ’’خطرناک!‘‘ اور چھلانگ لگا کر اپنی کشتی میں سوار ہو گیا۔ ’’میں اب جا رہا ہوں۔ تم آنا چاہتے ہو، توآ سکتے ہو۔ ‘‘
میں نہیں جانتا کہ اس وقت میرے دل میں کیا آئی۔ نہ جانے یہ اپنے ہنس مکھ، شکرے کی آنکھ والے چچا کی میرے نہ پہنچنے پر مایوسی کی فکر تھی اور اس بھنے ہوئے مرغ کا خیال تھا جو وہ اپنی خاص نگرانی میں پکوا رہا ہو گا یا یہ دریا کا وسیع حسن و جمال تھا یا پھر یہ اس جنگلی لڑکے کی خوداعتمادی سے بھری ہنسی تھی۔ میں نے یکلخت اس کے ساتھ جانے کا فیصلہ کر لیا۔ زندگی میں ایسے بہادر لمحے آتے ہیں، جب آدمی جان کی بازی لگا دیتا ہے۔
’’ٹھہرو! میں تمھارے ساتھ آ رہا ہوں۔ ‘‘
’’نہ نہ سائیاں! کملا نہ بنو ہا۔ ایہہ چھوکرا چوڑا ہے۔ کشتی بُڈ ویسی۔ ‘‘ مگر میں تو اب اپنے تھیلے اور سوٹ کیس کے ساتھ کشتی میں تھا اور کنارے پر حواس باختہ گامن کو احتجاج کرتے چھوڑ کر ننھا مانجھی اپنی مچھلی جیسی کشتی کو بھنوریلے، لپٹتے پانیوں میں لے جارہا تھا۔ وہ ایک یونانی دیوتا کی طرح حسین لگ رہا تھا۔ اس کے گھنگھریالے بال ہوا میں اڑ رہے تھے۔ کچھ دیر کے لیے میں اس کے اس دم سادھ دینے والے انسانی حسن میں کھو گیا اور اس خطرے کوبھول گیا جس میں کود پڑا تھا۔
جب میں نے اچھی طرح اپنے گردوپیش کا جائزہ لیا تو خوف نے مجھ جکڑ لیا۔ پانی کی لہریں غصیلے سانپوں کی طرح کشتی کے کناروں پر شوکتی ہوئی آتی تھیں۔ میں پانچ منٹ کے اندر سر تا پا بھیگ گیا۔ کشتی میں بھی پانی بھرنا شروع ہو گیا۔ مگر ننھا ما نجھی صرف مسکراتا رہا۔ اس کے چہرے پر فکر یا خطرے کی کوئی علامت نہ تھی۔ کشتی ایک نازک گھونگھے کی طرح کبھی ادھر لڑھکتی جاتی کبھی ادھر اور کبھی سر کے بل اپنی دو سواریوں سمیت پانی کی گہرائیوں میں غوطہ لگاتی معلوم ہوتی۔ لیکن پھر یہ صحیح سلامت لہروں پر سوار نکل آتی۔ پہلے پندرہ بیس منٹ تک میرا سانس اوپر کااوپر اور نیچے کا نیچے رہا اور میری ہڈیوں کا گودا تک ڈر اور سہم سے گویا جم گیا۔ پھر لڑکے کی خوداعتمادی اور مسکراہٹ اور اس عجیب و غریب کشتی کی خطرے کے مقابلے میں چستی کو دیکھ کر مجھے کچھ اطمینان ہونے لگا۔ میں نے اس عرصے میں ایک لفظ نہیں کہا تھا اور نہ ہی لڑکا کچھ بولا۔ اپنے مطمئن انداز کے باوجود اس کی رگ رگ چوکنا تھی آنے والے خطرے کی بو وہ ایک جنگلی جانور کی طرح پا لیتا اور اپنے چپو کی مناسب جنبش سے اس پر قابو حاصل کر لیتا۔ اپنے خوف سے کچھ خلاصی پا کر میں نے دریا کے منظر کو دیکھا۔ یہ ایک پُر تجمل، ہولناک اور بے حد خوبصورت منظر تھا… سہ پہر کے سونے سے رنگے،اچھلتے، بپھرتے اور شوکتے پانی۔ ہم ایک دو ’جزیروں‘ کے پاس سے گزرے۔ سیلاب میں آدھی ڈوبی ہوئی بستیاں، لوگ ڈھکیوں پرچارپائیوں پر لیٹے ہوئے کھجوروں کی چوٹیاں پانی پر جھومتی ہوئی۔ میں نے سوہنے (یہ اس ننھے مانجھی کا نام تھا، اور کتنا مناسب!) سے پوچھا کہ یہ لوگ ڈرتے نہیں؟ اس نے کہا ’’نہیں! یہ لوگ دریائی ہیں اور دریا پر وہ اتنے ہی محفوظ ہیں جتنے زمین پر۔‘‘
اس وقت دریا میں سوائے سوہنے کی چھوٹی کشتی کے اور کوئی کشتی نہیں تھی۔ ہم کبھی بانس اور کبھی چپو کی مدد سے پہلے ہوا اور بہائو کی مخالف سمت گئے، پھر ننھے مانجھی نے کشتی کے پیندے میں ایک مخصوص جگہ اپنا بانس گاڑ دیا اور سرکنڈوں سے بنا ہوا ایک بادبان، جو اس نے کہیں تختوں کے نیچے رکھا تھا، نکال کر اسے مہارت سے اس بانس پر باندھ دیا۔ اس نے یہ سب کچھ مکمل اطمینان اور بے پروائی سے کیا جیسے یہ دنیا کی آسان ترین چیز ہو، محض بچے کا کھیل۔ اس کے لیے واقعی یہ کھیل تھا۔ اس کے بعد وہ چین سے بیٹھ گیا ۔ میں نے اسے ایک سگریٹ سلگا کر دیا۔ وہ بڑا خوش ہوا اور اسے ایک جوان کی طرح پینے لگا۔
’’اب کوئی فکر کی بات نہیں، بیڑی ہمیں خود بخود دریا پار لے جائے گی سائیاں۔ دریا میرا بھی سنگتی ہے اور میری بیڑی کا بھی۔ سائیاں، تم اب تک تو سمجھ گئے ہو گے۔ ‘‘
اس نے مجھ سے پوچھا کہ میں کس ملک سے آیا ہوں اور مٹھن کوٹ کس کے پاس جا رہا ہوں۔ میں نے اسے اپنے چچا کا نام بتایا، تو اس کے چہرے پر ایک سایہ سا آیا، لیکن پھر اس پر پہلی سی چمک عودآئی۔ ’’اساں سوہنے سائیں دی رعیت ہاں۔ میں تینکوں اُتھے لے جاساں۔ ‘‘
شام پڑنے لگی تھی اور پرلا کنارہ جس کی طرف ہم جا رہے تھے، کھجوروں اور گنبدوں کی ایک دھند سا بن رہا تھا۔ دریا کے بہائو کی سمت ایک دو میل دور۔ سوہنا کبھی کبھی اپنے گھونگھے کو سیدھی سمت پر رکھنے کے لیے چپو چلا دیتا اور بس۔
وہ گانے لگا۔ اس کی آواز میں ایک وحشیانہ تموج تھا، ایک آزاد الاپ تھی… اپنے دریا سے مستعار لی ہوئی الاپ۔ یہ اس کے دیس کا نغمہ تھا جہاں آدمی قدرت کے ساتھ ہم آہنگی سے رہتا تھا اور تنومند اور دلیر اور جیالا ہو کر پروان چڑھتا تھا:
میری بیڑی ویندی پئی اے
نچدی کِھلدی ویندی پئی اے
دریاواں دی مچھی اے
سوہنی اے تے سسی اے
میری بیڑی ویندی پئی اے
بھلّن تے سنسار دریا دے
تر کندے سنگھاڑ دریا دے
بیڑی دے ہن یار سبھانے
’’یہ بڑا اچھا گیت ہے سوہنا۔ یہ گیت کس کا ہے؟‘‘
میرے یہ کہنے سے وہ بڑا خوش ہوا ’’یہ گیت میں نے خود بنایا ہے۔ میں نے اور کئی گیت بنائے ہیں۔ جب میں مچھلی کے شکار پر آتا ہوں تو گیت خودبخود میری زبان پرآجاتے ہیں۔ بہت سے تو مجھے بھول بھی گئے ہیں۔ مگر کیا ہوا، نئے گیت میں آسانی سے بنا لیتا ہوں۔ ‘‘
سوہنے میں ایک شاعر کی روح تھی اور جب شام گہری ہوئی، تو میں نے اپنے خوف کو بالکل بھلا کر اس سے مختلف سوال پوچھنے شروع کیے۔ اس سے زیادہ پرکشش اور حیران کن لڑکا میں نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔
اس نے مجھے بتایا کہ وہ ایک چوہڑے کا بیٹا ہے اور اس کا باپ مرچکا ہے۔ اس کی ماں ٹوکریاں بن کر پیٹ پالتی ہے اور وہ اپنی چھوٹی کشتی میں مچھلیاں پکڑتا ہے۔ وہ بہت غریب ہیں اور دنوں تک ان کی خوراک میں ابلی ہوئی مچھلی اور بھنے ہوئے باجرے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ انھیں ہفتوں تک کھانا نصیب نہیں ہوتا۔
یہ کشتی جس میں ہم اس غصیلے پانی پر سفرکر رہے تھے، سوہنے نے خود اپنے ہاتھ سے ایک کھجور کے تنے کو کھوکھلا کر کے اور کچھ تختے جوڑ کربنائی تھی۔ اس میں بیٹھ کر وہ اکیلا مچھلی پکڑنے جاتا… کانٹے اور ڈور کے بغیر۔ اس کے پاس ایک پھٹا پرانا جال تھا جو ایک شناسا مچھیرے نے اسے دیا تھا۔ اسے ایسی آوازیں نکالنی آتی تھیں، خاص قسم کی سیٹیاں اور کلکاریاں اور لوریاں، کہ جن کو سن کر مچھلیاں خود بخود کشتی کی طرف کھنچی چلی آتی تھیں۔
’’سائیاں! میکوں مچھی آون دا آپے آپ پتا چل ویندا اے۔ ‘‘ اس نے کہا۔
سوہنے میں وہ چھٹی حس تھی جو قدرت کے سب جنگلی جانوروں میں پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی حس سے ہوا کے پرندے طوفان کے آنے سے گھنٹوں پہلے خبردار ہو جاتے ہیں اور شکاری کتے خرگوش کے قدموں سے اس کی بوپا کر اپنے کان کھڑے کر لیتے ہیں اور چمگادڑ اپنی آنکھوں کے بغیر سب رکاوٹوں سے بچتی بچاتی اڑتی ہے۔ ابھی روہی میں ایسے لوگ ہیں جو زمین کے نیچے پانی کو سونگھ لیتے ہیں اور کبھی ایسے ریڈ انڈین بھی ہوتے تھے جو ایک ٹہنی کی ہلکی سی چٹخ سے یہ بتا سکتے تھے کہ ان کی کھوج میں کون دشمن آرہا ہے۔ سب مخلوقات جو قدرت کے ساتھ یکجان ہو کر رہتی ہیں، اس چھٹی حس کی مالک ہوتی ہیں اور یہ باعث حیرت نہیں کہ ننھے مانجھی کو یہ پتا چل جاتا تھا کہ مچھلی آ رہی ہے۔
جب مچھلی نزدیک آ جاتی، تو وہ اپنے منہ میں چاقو اور ہاتھ میں جال لیے دریا میں چھلانگ لگا دیتا۔ وہ کبھی کشتی میں سے جال نہیں پھینکتا تھا کیونکہ جال پھٹا پرانا تھا اور اس میں سے مچھلی کے نکل جانے کا خطرہ تھا۔ پانی میں وہ مچھلی کو جال میں پکڑنے کی کوشش کرتا۔ یہ کوشش اکثر بار آور ہوتی، لیکن اگر مچھلی جال میں کسی وجہ سے نہ آتی، تو وہ اپنے ہاتھ استعمال کرتا۔
اس نے مجھے بتایا کہ وہ مچھلی کے شکار کے وقت منہ میں چاقو کیوں دابے رکھتا ہے؟ اس نے کہا، دریا میں ایک بڑی مچھلی بھلّن ہوتی ہے۔ جب مچھلیاں اس کی کشتی کی طرف آتی ہیں ، تو بعض دفعہ یہ بھلّن ان کے پیچھے پیچھے آ پہنچتی ہے۔ یہ گدھے جتنی بڑی ہوتی ہے اور بہت طاقتور ہوتی ہے۔
’’ایہہ چاقو، سائیاں! بھلّن کو مارنے کے لیے ہے۔ میں بھلّن کے پیٹ کے نیچے تیر کر جاتا ہوں اور دو تین بار اس کے پیٹ میں چاقو گھونپتا ہوں۔ اپنے قدو قامت کے باوجود یہ آسانی سے مرجاتی ہے۔ ‘‘
سوہنے نے مجھے اپنی بائیں ٹانگ دکھائی۔ یہاں گھٹنے سے لے کر ایڑی تک ایک ایک گھائو کا نشان تھا۔ ’’سائیاں، بوجھو یہ کیسے ہوا؟‘‘
’’مجھے معلوم نہیں۔ ‘‘ میں نے کہا۔
’’تم کو یقین نہ آئے گا سوہنے سائیاں! ایک دفعہ میں پار کے علاقے میں بیڑی میں مچھلی پکڑنے گیا۔ بڑی دیر تک کوئی مچھلی نہ آئی اور میں سمجھا کہ اس حصے کی سب مچھلیاں کہیں چلی گئیں ہیں۔ پھر جب میں گھر کا رخ کرنے لگا، تو مچھلیوں کا لشکر کا لشکر بیڑی کی طرف تیرتا ہوا آیا۔ لیکن اس کے پیچھے گدھے جتنی بڑی بھلّن تھی۔ میں چاقو منہ میں دابے پانی میں اتر گیا۔ اب بھلّن مچھلیوں کو کھاتی ہے اور سنسار بھلّن کا شکار کرتا ہے۔ اس وقت بھلّن کے پیچھے پیچھے ایک سنسار بھی بھلّن کو کھانے چلا آیا تھا۔ یہ مجھے پتا نہ تھا۔ میں بھلّن کے پیٹ میں چاقو گھونپنے لگا تھا کہ نیچے سے سنسار نے اپنے جبڑے میں میری ٹانگ کو پکڑ لیا۔ سائیاں، تم یقین نہیں کرو گے۔ میں نے اپنے ہوش و حواس بجا رکھے۔ میرے باپ نے مجھے ایک بار بتایا تھا کہ سنسار کی آنکھیں اگر اندھی کردو تو وہ بے بس ہو جاتا ہے۔ بس سائیاں، میں تیر کر سنسار کے دہانے کے سامنے آیا اور اس کی آنکھوں میں چاقو سے دو گھونپے دیے۔ بڑا لہو بہا۔ سنسار تکلیف سے تڑپنے لگا اور اس کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔ میں بچ کر اپنی کشتی میں چڑھ آیا مگر میری ٹانگ بالکل لوتھڑا ہو گئی۔ ہسپتال میں وہ اسے کاٹنے لگے تھے، پر بڑے ڈاکٹر نے کاٹنے نہ دیا۔ مجھے ہسپتال میں چار پانچ مہینے رہنا پڑا اور میری ٹانگ اب سوائے اس نشان کے بالکل ٹھیک ہے۔ ‘‘
ننھا مانجھی جھوٹ نہیں بول رہا تھا۔ اس کے چمکیلے چہرے پر صاف صاف لکھا تھا: میں سچ بول رہا ہوں!
پھر اس نے کہا’’سائیاں! میں مچھلیاں کوں سڈاں؟ ایس ڈار وچ مچھلیاں نیں۔ ‘‘ وہ سیٹیاں مارنے اور اپنے ہاتھوں کو ایک خاص انداز میں بجانے لگا۔ تھوڑی دیر ہی دیر بعد پانی میں مچھلیوں کے اچھلنے کی حرکت پیدا ہونے لگی۔ ننھے مانجھی کو پانی میں نہ اترنا پڑا کیونکہ ایک مچھلی چھلانگ لگا کر کشتی میں آ کر گری، تڑپتی ہوئی۔
میں یہ بتانا بھول گیا کہ ہم پرسکون پانی میں تھے… دریا کی چھل کے بنائے ہوئے ٹاپو میں۔ ہم اس پتن سے گزر آئے تھے جہاں فیری لنگر ڈالے کھڑی تھی اور اب ہم کھجوروں کے جھنڈوں میں سے اندھیرے سبز راستوں میں شپ شپاتے گزر رہے تھے۔ کشتی میں سے کھجوروں کے گچھے توڑتے ہوئے ہم آخر خشکی پر آئے۔ مغرب کی سمت ایک سفیدی نے ہمیں بتایا کہ چاند ابھر آیا ہے۔
ننھے مانجھی نے میرا سوٹ کیس اٹھایا اور ہم سونی سڑک پر چل پڑے۔ میرا دریائی چچا شہر کی دو منزلہ حویلی میں رہتا تھا۔ میں وہاں پہلی دفعہ آیا تھا لیکن سوہنے کو اس جگہ کا پتا تھا۔ وہ مجھے وہاں لے گیا۔
میرے چچا نے مجھے خندہ پیشانی سے خوش آمدید کہا۔ اس کا چہرہ مسکراہٹوں سے شکن آلود ہو گیا،کیونکہ اب تک وہ میرے آنے سے مایوس ہو چکا تھا۔
جب میں اس سے مل رہا تھا، توسوہنا دروازے میں کھڑا تھا۔ میں سوہنے کو دو روپے دینے لگا، تومیرے چچا کا مسکراتا چہرہ درشت اور سخت ہو گیا۔ وہ سوہنے پر برسا ’’او چوہڑے دے بچے، تینکوں ساڈے خاندان توں پیسے لیندیاں شرم نہیں آندی؟‘‘
سوہنا چلا گیا۔ میرا چچا ان علاقوں میں ایک سخت اور جابر آدمی کی حیثیت سے مشہور تھا۔ اب میری سمجھ میں آیا کہ اس کا نام سنتے ہی سوہنے کے چہرے کی رنگت کیوں بدلی تھی۔
میں مٹھن کوٹ میں دو ہفتے رہا۔ مجھے اپنے چچا سے آبائی زمین کے معاملات طے کرنا تھے مگر اس کے زرخیز دماغ میں دوسرے ارادے تھے۔ البتہ یہ میرے ذاتی معاملات ہیں اور یہاں مجھے ان کا ذکر نہیں کرنا چاہیے۔
ایک دفعہ میں نے خواجہ غلام فرید کے روضے کی عقبی گلی میں سوہنے کو پھر دیکھا۔ سوہنا مجھے اپنے گھر لے گیا۔ دریائی ٹاپوئوں کے کنارے پر سرکنڈوں کی ایک چھوٹی سی جھونپڑی تھی۔ اس میں مٹی کے دو تین برتنوں کے سوا کچھ نہ تھا یا پھر سیپیوں کا ایک ہار اور ایک بانسری دیوار سے لٹک رہی تھی۔ سوہنا یہاں اکیلا رہتا تھا۔ اس نے کچھ افسوس سے کہا کہ اس کی ماں نے شادی کر لی ہے اور وہ اوراس کا خاوند علی پور چلے گئے ہیں جہاں اس کے سوتیلے باپ کی لوہارے کی دکان ہے۔
’’سوہنا‘‘ میں نے پوچھا، تمھارے پاس چارپائی نہیں؟‘‘
’’میں زمین پر سوتا ہوں، سوندھی سجری زمین پر۔ ‘‘ اس نے مجھے سرکنڈوں کی ایک چٹائی دکھائی۔ ’’میں اس پر سوتا ہوں۔ یہ میرا وِچھاون ہے۔ ‘‘
’’تم سانپوں سے نہیں ڈرتے؟‘‘ میں نے پوچھا۔ میں خود سانپوں سے بے حد ڈرتا تھا اور ان کے ڈرائونے خواب دیکھا کرتا تھا۔
’’سانپ مجھے کچھ نہیں کہتے۔ میں تو ان کے ساتھ کھیلتا ہوں۔ ‘‘
’’اور تم سردیوں میں کیسے رہتے ہو؟ تمھارے پاس لحاف نہیں تم تو ٹھٹھر جاتے ہو گے؟‘‘
’’مجھے سردی نہیں لگتی۔ جب سخت سردی پڑتی ہے، توسائیاں! پتا ہے میں کیا کرتا ہوں؟ میں بہت سا گڑ کھا لیتا ہوں اور اپنے وچھاون پر لیٹ جاتا ہوں۔ یہ بڑا لمبا ہے اس لیے آدھے حصے کو الٹا کر اپنے اوپر اوڑھ لیتا ہوں۔ میں اتنا گرم ہو جاتا ہوں جتنا سیڑ (خرگوش) اپنے بھٹ میں۔ ‘‘
میں نے اسے کہا کہ وہ میرے ساتھ سکھر چلے، میں اسے وہاں کسی فیکٹری میں نوکر کرا دوں گا۔ مگروہ سوچ میں کھو گیا۔ اس نے اپنا سر ہلایا ’’میں اپنی بیڑی اور دریا کو نہیں چھوڑ سکتا سائیاں۔ میں فیکٹری میں کام کرنا نہیں چاہتا۔‘‘
پھر اس نے کہا ’’سائیاں! میں تیڈی کیا خدمت کراں؟ میرے پاس کچھ مکھانے ہیں۔‘‘ وہ ایک پیالے میں مکھانے لے آیا اور ہم کھانے لگے۔ یہ غریبانہ مہمان نوازی ایک بادشاہ کی ضیافت سے کہیں اچھی تھی۔ پھر اس نے بانسری دیوار سے اتارلی اور اسے بجانے لگا۔
’’سوہنا! تم نے کوئی نئے گیت بنائے ہیں؟‘‘
’’بہت سے۔ ہر روز جب میں اپنی بیڑی میں مچھلیاں پکڑنے جاتا ہوں، نئے گیت بناتا ہوں۔ کبھی میرے ساتھ شکار پر چلو، میں تمھیں بہت سے گیت سنائوں گا۔ ‘‘
میںنے اسے تین روپے دینے کی کوشش کی لیکن اس نے لینے سے انکار کردیا۔ سوہناخود دار لڑکا تھا۔ میں نے اسے کہا کہ وہ مجھے اپنی کشتی میں مٹھن کوٹ لے کر آیا تھا اور میں نے اسے کوئی اُجرت نہ دی تھی۔ اس نے کچھ نہ کہا۔ پھر میں اسے اپنے ساتھ بازار لے آیااور اسے اس کی پسند کی چیزیں خرید دیں… ایک نیا چاقو، ایک سیر نمک، آدھ سیر گڑ، چائے کا ڈبا، سجی، تھوڑا سا رنگدار لٹھّا۔
وہ بڑا خوش ہوا اور اس نے کہا کہ اب وہ بادشاہ زادے کی طرح رہے گا۔
وہ اس وقت تک مجھے چھوڑنے پر تیار نہ ہوا جب تک میں نے اس سے وعدہ نہ کر لیا کہ میں کسی دن اس کے ساتھ شکار پر جائوں گا۔
میں اس کے ساتھ مچھلی کے شکار پر نہ جا سکا اور اگرچہ میری رخصت کے چند دن باقی تھے مگر مجھے دوسرے ہی دن اپنے دریائی چچا سے ایک جھگڑے کی وجہ سے مٹھن کوٹ چھوڑنا پڑا۔ دریا کے پتن پر جاتے ہوئے میں نے سوہنے کی جھونپڑی میں جھانکا، مگر ننھا مانجھی وہاں نہ تھا۔ ساتھ کی جھونپڑی میں ٹوکریاں بننے والی ایک بوڑھی عورت نے مجھے بتایا کہ وہ شکار پر گیا ہے۔ ’’اللہ اس کو حیاتی دے۔ بڑا نیک وہ ہے۔ مچھی لاتا ہے ، تو بچوں کو تقسیم کرتا پھرتا ہے۔ میں اس کے لیے دعا مانگتی رہتی ہوں کہ رب اسے نظرِ بد سے محفوظ رکھے۔ ‘‘
مجھے اس سے نہ ملنے کا افسوس ہوا۔ میں فیری لانچ کے پتن پر پہنچا اور ٹکٹ لے کر اس میں سوار ہو گیا۔ ریل کے ڈبے کے سے کمرے میں بڑا حبس تھا اس لیے میں سامنے عرشے پر پتوار کے پاس ایک چارپائی پر جا بیٹھا جو دراصل ایک ترکی ٹوپی والے تھل تھل کرتے مخدوم کے لیے بچھائی گئی تھی۔ میں نے پتلون کوٹ پہن رکھا تھا اس لیے کسی نے اعتراض نہ کیا۔ مخدوم کے پائوں دبانے کے لیے چار نوکر تھے اور ایک اس کاحقہ بھرنے پر مامور تھا۔ میں نے مخدوم کے ساتھ حقہ پیا اور ہم نے بہت سی باتیں کیں… اوقاف کی چیرہ دستی کی، روحانیت کی کمی کی اور شکار کی۔ ایسے مواقع پر آدمی خود کو بڑھا کر ظاہر کرے، تو ٹھیک رہتا ہے، اس لیے میں نے مخدوم پر یہ ظاہر کیا کہ میں شکار پور میں فاریسٹ آفیسر تھا۔ پھر میں نے اسے اگلی سردیوں میں وہاں شکار پر آنے کی دعوت دی۔ فیری لانچ ابھی منجدھار میں تھی کہ مجھے ننھے مانجھی کی بیڑی دکھائی دی…بالکل ننھی سی ڈونگی! ننھا مانجھی پانی میں تھا…مچھلیاں پکڑتا ہوا، دھوپ میں ایک یونانی دیوتا کی طرح حسین اور جیالا۔
اس نے ایک دفعہ بھی فیری لانچ کی طرف نہ دیکھا۔ وہ مچھلیاں پکڑنے میں بہت مصروف تھا ’’اب دیکھو‘‘ مخدوم نے کہا۔ ’’ اب ہماری یہ حالت ہو گئی ہے کہ میں نے اپنے پرانے وفادار مدارالمہام کو بھی چھٹی دے دی ہے ۔ گورنمنٹ کہتی ہے کہ ان کی املاک چھین لو۔ کل کو کہے گی کہ ان کے شکاری کتے بھی چھین لو۔ آخر کتے بھی تو املاک میں شامل ہیں۔ ‘‘
میں نے اتفاق کیا۔ اس گئے گزرے زمانے میں روحانیت کی اقدار واقعی مٹ رہی تھیں۔ چار پانچ سال بعد میں علی پور میں سینئر کمپاؤنڈر مقرر ہوا۔ ہماری بیشتر آبائی جائداد مٹھن کوٹ کے پاس تھی اور میں نے کوشش کر کے اپنی تبدیلی علی پور میں کرائی تا کہ جائداد کی دیکھ بھال کر سکوں۔ میں مٹھن کوٹ اپنے چچا سے ملنے نہ گیا۔ ہمارے تعلقات بعض خاندانی معاملات کی وجہ سے کشیدہ اور تلخ ہو چکے تھے۔ چار سال پہلے سکھر میں، میں نے ایک سندھی تاجر کے گھرانے میں شادی کر لی تھی اور اب ہمارے دو بچے تھے،ایک لڑکا اور ایک لڑکی۔ شادی ایک عجیب تجربہ ہے۔ یہ ساری کی ساری گلابوں کی سیج نہیں جیسی کہ پہلے پہل نظر آتی ہے۔ آزاد منش آدمی کو تو یہ بالکل راس نہیں آتی اور وہ کئی بار مضطرب ہو کر ان بندھنوں کو توڑ کر جنگلوں میں بھاگ جانا چاہتا ہے۔ ہمارے درمیان اخراجات پر اکثر جو تم پیزار ہونے لگتی تھی۔ عورتیں عموماً تنگ دل اور ارضی ہوتی ہیں اور جب ان کے بچے ہو جاتے ہیں تو ان کی ساری محبت اور دلچسپی بچوں کی طرف منتقل ہو جاتی ہے اور ان کے خاوند ان کے لیے صرف ضروریات مہیا کرنے کے آلے بن کر رہ جاتے ہیں۔ ان تلخ جھگڑوں کے بعد ہم بعض دفعہ دنوں ایک دوسرے سے نہ بولتے اور ان دنوں سُتا ہوا اور بجھا ہوا میں دریا پر مچھلیاں پکڑتے ہوئے ننھے مانجھی کے بارے میں سوچتا… ہواؤں کی طرح آزاد اور گیت گاتا ہوا سوہنا کتنے مزے کی زندگی گذار رہا ہوگا!
ایک دن سوہنا آ گیا۔ مجھ پر اس صبح تاریک موڈ طاری تھا اور میں ہسپتال کے دواخانے میں بیٹھا ہسپتال کے اردلی بخشن کو نمبر ایک سے لے کر نمبر دس تک مکسچر بنانے کی ہدایات بے پروایانہ انداز میں دے رہا تھا۔ تب میں نے کھڑکی میں سے سوہنے کو دیکھا… دبلا اور پیلا سوہنا، بالکل ایک مختلف سوہنا۔ اس کے ساتھ رنگدار چھینٹ کے کرتے اور گھگھرے میں ایک دیہاتی عورت تھی، پینتیس چھتیس سال کی مگر ابھی تک جوانی کی سج دھج لیے ہوئے اور نخریلی۔ سوہنا اس کے کندھے کا سہارا لیے ہوئے تھا اور گھسٹتا ہوا چل رہا تھا۔ وہ بیمار تھا۔
میں نے اسے کھڑکی میں سے آواز دی، ’’سوہنے!‘‘ اور میں باہر برآمدے میں آ گیا۔ مجھے دیکھ کر سوہنے کے چہرے پر پہلی سی مسکراہٹ آ گئی، ’’سائیاں!‘‘ مجھ سے ہاتھ ملا کر اس نے کہا، ’’سائیاں، تم یہاں کہاں؟‘‘
میں اسے اپنے دواخانے میں لے آیا اور سہارا دے کر اسٹول پر بٹھا دیا۔ عورت اطمینان سے پھسکڑا لگا کر ایک دلربا حیوان کی طرح فرش پر بیٹھ گئی۔ میں تعجب کر رہا تھا کہ آیا سوہنے نے شادی کر لی ہے۔ ان علاقوں میں وٹّے سٹّے کے رواج کی وجہ سے سولہ سال کے لڑکے کے ساتھ اپنے سے کافی زیادہ عمر کی عورت کا بیاہ ہو جانا کوئی غیرمعمولی بات نہیں۔ سوہنے نے مجھے اس شش و پنج میں سے خود ہی نکالا’’سائیاں، ایہہ میری اماں بی بی اے۔ ‘‘
دریائی علاقے کی عورتیں اپنی جوانی کے رنگ روپ کو دیر تک قائم رکھتی ہیں۔
’’سوہنا،تم بیمار ہو؟ تمھیں کیا ہو گیا ہے؟
سوہنا نے مجھے بتایا کہ وہ پچھلے چار پانچ ماہ سے ایک عجیب پیچیدہ بیماری میں مبتلا ہے۔ پہلے پہل اس نے توجہ نہ دی اور مچھلیاں پکڑنے کے کام کو جاری رکھا۔ لیکن اب وہ کافی بیمار ہو گیا تھا۔ اچانک اس کے ہاتھ پاؤں بالکل سن ہو جاتے تھے۔ اسے ہلکا ہلکا بخار رہنے لگا تھا اور ایک دو دن پہلے اسے خون کی قے ہوئی تھی۔
’’ڈاک دار صاحب!‘‘سوہنے کی ماں نے کہا ’’میرا پتر ککھ ہو گیا ہے۔ ایہدے چہرے ول دیکھ ڈاک دار صاحب۔ میرے سوہنے نوں ٹھیک کر دے۔ ‘‘
مجھے سوہنے کی بیماری کا سن کر بڑا دکھ ہوا۔ کسی طرح میرے دل میں یہ بات نہ آتی تھی کہ سوہنا بھی سب کی طرح بیمار پڑ سکتا ہے۔
سوہنے نے کہا ’’جب میں بیمار پڑ گیا، تو میں اپنے ماما کے ساتھ بس میں بیٹھ کر اپنی اماں بی بی کے پاس علی پور آ گیا۔ میری اماں بی بی یہاں یارو لوہار سے بیاہی ہوئی ہے۔ میرا متریا باپ بڑا اچھا آدمی ہے۔ پنج وقت دا نمازی۔ ‘‘
سوہنا اپنی اماں بی بی کی دوسری شادی کر لینے کو بالکل قدرتی بات سمجھتا تھا اور اس طرح اسے غرور تھا کہ اس کی ماں ایک خاوند کو پھانسنے اور اپنا گھر بسانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ اس کے دل میں اس کا ذرا ملال نہ تھا… یہ کوئی عجیب بات نہیں، تہذیب کے ٹیبو ہی ہر بات کو عجیب بنا ڈالتے ہیں۔
میں نے ڈاکٹر سے کہہ کر سوہنے اور اس کی ماں کو ہسپتال میں ایک چھوٹی سی الگ کوٹھڑی لے دی۔ ڈاکٹر مریضوں کوہسپتال میں رکھنے کے حق میں نہ تھا۔ اس سے اس کا کام بڑھ جاتا تھا اور بعض قیمتی دوائیں جو بازار میں فروخت ہو سکتی تھیں، ضائع ہو جاتی تھیں۔ مگر میں نے اس سے کہا کہ سوہنا میرا قریبی عزیز ہے۔ یوں وہ مان گیا۔
سوہنے کو دق کی قسم کی کوئی بیماری تھی، اگرچہ پوری طرح اس کی تشخیص نہ ہو سکی۔ میں اس کا بھائی کی طرح خیال رکھتا۔ اسے وقت پر دوا ملنے اور ٹیکے بہم پہنچانے کی فکر کرتا اور شام کو کام سے فارغ ہو کر اس کے پاس گھڑی دو گھڑی بیٹھ کر اس کی باتیں سنتا۔ جب بھی میں جاتا اس کا چہرہ کھل اٹھتا اور ایک پیلی سی مسکراہٹ اس پر آجاتی۔ اس کی ماں سب دیہاتی عورتوں کی طرح حوصلہ مند اور محنتی تھی۔ وہ شام کو کوٹھڑی کے باہر ریت پر بیٹھ کر اپنے بیٹے کے لیے روٹی پکاتی۔ بعض وقت یارو لوہار آتا… بھاری بھر کم، چوڑا چوڑا چکلا چہرہ، مہندی سے رنگی ہوئی ڈاڑھی، آنکھوں میں سرمہ، وہ ہمیشہ سوہنے کے لیے کچھ نہ کچھ چیز لے کر آتا۔ سوہنے میں کوئی ایسی بات تھی، اس کی گفتگو کا ایسا سلجھائو تھا کہ ہر کوئی اس سے محبت کرنے لگتا تھا۔
لیکن ہماری تمام تر توجہ کے باوجود سوہنے کی حالت ابتر ہوتی گئی اور وہ ماضی کے سوہنے کا ایک ہیولا سا رہ گیا۔ اس کے بازو اور ٹانگیں اب پتلی سوکھی لکڑیاں نظر آتی تھیں۔ اب مجھے احساس ہونے لگا کہ ہوائوں اور دریائوں کا پالا سوہنا ہمارے پاس سے چلا جائے گا۔ لیکن وہ کیسے مر سکتا تھا؟ وہ جو قدرت کے عناصر میں سے ایک تھا، دریا جس کا بھائی تھا اور بیڑی جس کی بیوی اور محبوبہ تھی! وہ جو لہروں پربادشاہ کی طرح سوار ہوتا تھا اور دیوتائوں کی طرح گیت گاتا تھا! مچھلیوں کو کلکاریوں سے بلا لینے والا سوہنا! بھلّن اور مگرمچھ سے کشتی لڑنے والا سوہنا، وہ بھلا کیسے مر سکتا تھا؟
ایک شام میں اس کوٹھڑی میں گیا۔ اتنی کمزوری کے باوجود اس کی آنکھوں میں وہی روشنی تھی۔ اس نے کہا ’’سائیاں! میں اچھا ہو جائوں گا، تو ہم چھل پر مچھلیاں پکڑنے جائیں گے۔ ‘‘
’’ہاں ہاں سوہنا! تم اچھے ہو جائو گے۔ ‘‘
پھر وہ اداس ہو گیا ’’میری بیڑی میرے واسطے مونجھ گئی ہوسی۔ سائیاں! میں مر گیا، تو میری بیڑی دا کیہ ہوسی؟‘‘
’’تم جلد اچھے ہو جائو گے سوہنے۔ ‘‘
’’نہیں، اب نہیں سائیاں!‘‘ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ’’حیاتی کتنی سوہنی شے ہے سائیاں۔ میں مر ویساں تے تاں دریا میکوں یاد کریسی کہ کوئی حوصلے والا نکا میڈی چھاتی دے چڑھ کے گمداہا (گاتا تھا)۔ میری مچھلیاں پوچھیسن (پوچھیں گی) کہ چھوٹا جیا مانجھی کتھاں ایں جیہڑا کلکاریاں نال انہاں کو سڈدیند اہا۔ میں ہن شکار تے کدے نئیں جاساں سائیں۔ میں کدھے ہور دریا ول ویندا پیا ہاں…‘‘
اس کی آنکھیں کہیں دور دیکھ رہی تھیں، کسی دور کے دیس کی طرف۔ پھر اس پر کھانسی کا ایک شدید دورہ پڑا۔ کھانستے کھانستے اس کا دم گھٹنے لگا اور وہ جھٹ لیٹ گیا۔ اس کی ماں بھاگتی بھاگتی اندر آئی اور اپنے بیٹے سے روتی ہوئی لپٹ گئی ’’او میرے سوہنے لعل! او میرے سوہنے پتر!‘‘
میں بھاگا بھاگا کورا مین لانے گیا۔ لیکن جب میں لوٹا تو سوہنا بہت دور جا چکا تھا۔
اس کی ماں چھاتی پیٹ کر بین کر رہی تھی، مگر سوہنا جیسے چپ چاپ سو رہا تھا۔ ہونٹوں پر مسکراہٹ لیے، جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہو۔ وہ زندگی اور موت کے بڑے پرشور دریا پر تن تنہا مچھلی اور بھلّن کا شکار کرنے چلا گیا تھا، میرا ننھا مانجھی!
(محمد خالد اختر)