سرائیکی زبان یا بولی

ڈاکٹر عباس برمانی

سرائیکیوں سے ایک عام طور پر پوچھا جانے والا اعتراض نما سوال کہ جناب سرائیکی پنجابی کا ایک لہجہ ہے الگ زبان نہیں اور آپ اس بولی کی بنیاد پر ایک الگ قومیت اور پھر ایک الگ صوبہ بنانے جا رہے ہیں اصل مقصد پنجاب کے ٹکڑے کرنا ہے..

میں اس کے سیاسی سماجی اور استحصالی پہلوؤں کی بات نہیں کرتا ، خالص لسانیاتی linguistic علمی بنیادوں پر کچھ معتبر حوالے پیش کرتا ہوں،میں قوم پرست دوستوں کی طرح ہزاروں سال قدیم اسورا یا سویرا اور اس حوالے سے اسورکی اور سویرکی کو موجودہ سرائیکی کی ماں قرار نہیں دوں گا اور نہ ہی ملتان کو دولاکھ برس قدیم شہر کہوں گا.

اس خطے میں سائنسی بنیادوں پر لسانیاتی کام یورپین خصوصا برطانویوں نے کیا..

Wathen نے 1837 میں ہماری زبان کو پنجابی سے الگ ملتانی یا سرائی زبان قرار دیااور اس کے الگ حروف تہجی بھی بیان کیے.

1849 میں برٹن نے سرائیکی کی ابتدائی گرامر تحریر کی .

1870 میں ٹرمپ نے اسے پنجابی سے الگ زبان قرار دیا.

1881 میں اوبرائن نے ملتانی ڈکشنری مرتب کی اور اسے واضح طور پر پنجابی سے مختلف زبان قرار دیا.

ایک دلچسپ واقعہ ہے کہ 1814 میں ملتان میں بائبل کا ملتانی ترجمہ کیا گیا اسے چھاپنے کے لیے لاہور لے جایا گیا تو وہ متن کاتبوں اور چھاپہ خانے والوں کے لیے اجنبی تھا چنانچہ انہوں نے اسے مشرف بہ پنجابی کر دیا گیا اور جب وہ چھپ کر ملتان آئی تو ملتانیوں کے لیے ناقابل فہم تھی.

1895 میں بمفورڈ نےمغربی پنجاب میں بولی جانے والی زبان کی گرامرلکھی اسے پنجابی سے علیحدہ زبان قرار دیا اور اس زبان کا علاقہ ملتان اور سرگودھا ڈویژن اور ڈیرہ جات کو قرار دیا.

1899 میں ولسن نے اس زبان کی گرامر اور لغت تحریر کی.

1900 میں جیوکس نے ایک بہت بڑی لغت تحریر کی اور اس زبان کو جٹکی کا نام دیا.

1919 میں گریئرسن نے جنوبی لہنداکے علاقے کا مکمل سروے کیا . . یاد رہے کہ سکھ گرو بھی اس زبان کو لہندا کہتے تھے.

گریئرسن ڈیرہ جات میں بولی جانے والی زبان کو سرائیکی کی ڈیرہ وال شاخ لکھتا ہے.

1924 میں ٹرنر نے اس زبان پر کام کیا.

1936 میں بہل نے ملتانی زبان کی صوتیات پر کام کیا.

1970 میں سمرنوف نے لہندی کی گرامر تحریر کی اور اس نے پوٹھوہاری پہاڑی اور ہندکو کو پنجابی سے جدا سرائیکی کے لہجے قرار دیا.

1976 میں کرسٹوفر شیکل نے سرائیکی کی مکمل گرامر تحریر کی.

اتنے معتبر ماہرین لسانیات کی تحقیقات سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ سرائیکی ہمیشہ سے پنجابی سے جدا زبان رہی ہے.

موجودہ سرائیکی وسیب یا مجوزہ سرائیکستان پنجاب سے الگ حیثیت کا حامل رہا ہے .1820 میں سکھوں نے ملتان کا پنجاب کے ساتھ الحاق کیا ڈیرہ غازی خان میں تونسہ سے روجھان تک سکھوں کے خلاف شدید مزاحمت ہوئی آخر انگریزوں نے1845 نے ڈیرہ غازی خان کو پنجاب میں اور بعدازاں ڈیرہ اسمعیل خان کو سرحد میں شامل کر دیا.

بہاول پور ایک آزاد ریاست تھی جس کا قیام پاکستان کے بعد ون یونٹ بننے پر پنجاب کے ساتھ ناجائز الحاق کیا گیا.

معترض حضرات کے اعتراضات بے بنیاد اور حقائق کے خلاف ہیں ، نا صرف سرائیکی زبان ہمیشہ سے پنجابی سے الگ زبان رہی ہے بلکہ سرائیکی وسیب بھی سکھا شاہی یا سکھ گردی سے پہلے کبھی پنجاب کا حصہ نہیی رہا.

خصوصی شکریہ: حسین برمانی لنگوئسٹ..

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Twitter picture

You are commenting using your Twitter account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s