شہر میں صرف افواہوں کا سیلاب تھا
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، مظفرگڑھ
بی بی سی اردو کے وسعت اللہ خان پاکستان میں آنے والے سیلاب سے متاثرہ علاقہ جات کے دورے کا احوال ایک ڈائری کی صورت میں بیان کریں گے۔ پیش ہے اس سلسلے کی پہلی کڑی
اتوار آٹھ اگست
ہزاروں لوگ ٹرکوں ، ٹریکٹر ٹرالیوں ، ویگنوں، بسوں ، سائیکلوں ، بیل گاڑیوں اور کاروں پر آرہے تھے
کل صبح میں کراچی سے ملتان پہنچا ۔
ملتان پہنچ کر معلوم ہوا کہ جتنی بھی فور وھیل ڈرائیو گاڑیاں ہیں سیلاب کے سبب امدادی اداروں اور این جی اوز نے کرائے پر لے لی ہیں جبکہ کاریں اور ہلکی گاڑیاں متاثرہ علاقوں میں ایک خاص حد سے آگے نہیں چلائی جاسکتیں۔جو دو تین فور وھیل گاڑیاں رینٹ اے کار والوں کے پاس دستیاب بھی تھیں انکا کرایہ بھی دس سے پندرہ ہزار روپے روزانہ کے حساب سے طلب کیا جارہا تھا اور ایندھن بھی خود ہی ڈلوانا تھا۔بہرحال میرے دوست محمود نظامی تونسوی کی کوششوں سے ایک مہربان نے سات گھنٹے کی بھاگ دوڑ کے بعد ایک فور وھیل گاڑی کا انتظام کر دیا۔شام گہری ہوچکی تھی اس لئے مجبوراً ملتان میں ہی رات گذارنی پڑی۔
آج صبح جاگتے ہی ٹی وی آن کیا تو پہلی اطلاع ملی کہ رنگ پور نہر ٹوٹ گئی ہے اور کچھ ’پیشہ ورانہ ذمہ داری‘ سے سرشار مقامی چینلز نے اطلاع دی کہ سیلابی پانی مظفر گڑھ شہر میں داخل ہوگیا ہے۔ہزاروں لوگ ملتان آنے کے لیے مظفر گڑھ ریلوے سٹیشن پر موجود ہیں۔اور تین ہزار افراد کو فوری طور پر نکالنے کے لیے دو خصوصی ٹرینیں ملتان سے مظفر گڑھ تک چلائی گئی ہیں۔شہری انتظامیہ فلڈ وارننگ دینے کے بعد غائب ہوگئی ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔یہ خبر سنتے ہی مجھے آگے جانے کی امید مسدود نظر آنے لگی کیونکہ سیلابی علاقوں میں داخلے کے لئے تمام اہم راستے مظفر گڑھ شہر یا بائی پاس سے ہی گذرتے ہیں۔
میں نے تقسیمِ ہندوستان کے نقل مکانی کے مناظر نہیں دیکھے صرف بزرگوں سے سنے ہیں۔لیکن دریائے چناب کے پل پر پہنچنے کے بعد مجھے یوں لگا جیسے پارٹیشن کے موضوع پر بننے والی کسی فلم کی شوٹنگ ہو رہی ہو۔
بہرحال جوا تو کھیلنا ہی تھا۔مگر بیشتر پٹرول پمپ بند تھے کیونکہ کوٹ ادو کے قریب محمود کوٹ آئل ریفائنری میں پانی گھسنے کی اطلاع نے اپنا کام کردکھایا تھا۔ جو پٹرول پمپس کھلے ہوئے تھے ان میں سے کچھ ہرائیویٹ پمپس پر تریسٹھ روپے کچھ پیسے لیٹر کا پٹرول سو سے ایک سو بیس روپے فی لیٹر بکنے کی خبریں آرہی تھیں۔ ملتان کینٹ کے علاقے میں شیل کا ایک پٹرول پمپ بظاہر ویران ہونے کے باوجود کھلا ہوا لگ رہا تھا۔مگر وہاں صرف ڈیزل دستیاب تھا۔خوش قسمتی سے فور وھیلر گاڑی ڈیزل تھی لہذا پمپ بوائے نے پمپ مینجر سے پوچھنے کے بعد ٹنکی فل کردی۔
اب ٹی وی چینلز کی رپورٹوں کی روشنی میں مجھے یہ فکر کھائے جارہی تھی کہ کیا میں مظفر گڑھ سے آگے جا سکوں گا یا دریائے چناب کے پل پر سے ہی واپس کردیا جاؤں گا۔ملتان سے شیر شاہ اور شیر شاہ سے دریائے چناب کا پل۔
میں نے تقسیمِ ہندوستان کے نقل مکانی کے مناظر نہیں دیکھے صرف بزرگوں سے سنے ہیں۔لیکن دریائے چناب کے پل پر پہنچنے کے بعد مجھے یوں لگا جیسے پارٹیشن کے موضوع پر بننے والی کسی فلم کی شوٹنگ ہورہی ہو۔جس سمت سے ہم دوسری جانب جانے کی کوشش کررہے تھے اس سمت کی ٹریفک روک دی گئی ۔تاکہ مظفر گڑھ کی طرف سے نقل مکانی کرکے ملتان آنے والوں کو راستہ مل سکے۔
لوگ یقیناً اپنے اپنے گھروں کے باہر سامان سمیت کسی سواری کے انتظار میں کھڑے تھے لیکن شہر میں صرف افواہوں کا سیلاب تھا۔
ہزاروں لوگ اس سمت سے ٹرکوں ، ٹریکٹر ٹرالیوں ، ویگنوں، بسوں ، سائیکلوں ، بیل گاڑیوں اور کاروں پر آرہے تھے اور یہ نہ ختم ہونے والا منظر تھا۔جنہیں سواری نہیں ملی وہ پیدل ہی استعمالی اشیا سے بھرے ہوئے پلاسٹک کے شاپنگ بیگ، چمڑے کے تھیلے ، اٹیچی کیس ، لوہے کے ٹرنکس یا پوٹلیاں سر پر رکھے چل رہے تھے۔
پندرہ نوجوان اور ادھیڑ عمر خواتین کا ایک گروہ پل کی جانب بڑھ رہا تھا۔ان میں سے کچھ کے ہاتھوں میں بچے تھے یا پھر پانی کی بوتلیں۔ایک بوڑھا سر پر صرف چارپائی اٹھائے جا رہا تھا۔دس بارہ سال کے بچے بچیوں کا ایک گروپ بغیر کسی بڑی عمر کی عورت یا مرد کے بغیر رواں تھا۔
ایک نوجوان نے اپنے ہاتھوں میں صرف کتا اٹھایا ہوا تھا۔میں نے گاڑی سے اتر کر اس سے پوچھا صرف کتا ؟ اس نے رکے بغیر جواب دیا ’آدمیوں سے اچھا ہے‘ اور میری طرف دوسری بار دیکھے بغیر آگے بڑھ گیا۔یہ انسانی پریڈ چناب کے پل سے چار کلومیٹر پیچھے مظفر گڑھ بائی پاس تک پھیلی ہوئی تھی۔
تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کے ٹریفک جام کے بعد ہماری گاڑی پل پار کرنے میں کامیاب ہوسکی۔میرے ڈرائیور ساتھی وسیم عباس نے پل پار کرتے ہی کہا بائی پاس کے بجائے مظفر گڑھ شہر میں سے گذرتے ہیں۔میں تقریباً چیخا کہ تم نے نہیں سنا چینلز شہر میں سیلاب آنے کی خبر دے رہے ہیں۔پھر کچھ سوچ کر میں نے کہا چلو شہر کے اندر سے ہی چلو۔کم ازکم سیلابی پانی ہی دیکھ لیں گے۔اور ہم چلتے چلے گئے اور ہم مظفر گڑھ شہر سے بھی آگے ملتان میانوالی روڈ پر نکل گئے۔مگرحسرت ہی رہی کہ کہیں سیلابی پانی دیکھ لوں۔
’لوگ نکل رہے تھے اور جوق در جوق نکل رہے تھے‘
شہر کی نوے فیصد دوکانیں ضرور بند تھیں۔معمول کا ٹریفک بہت کم تھا ۔لوگ یقیناً اپنے اپنے گھروں کے باہر سامان سمیت کسی سواری کے انتظار میں کھڑے تھے لیکن شہر میں صرف افواہوں کا سیلاب تھا۔
ایک ٹریفک سارجنٹ کہہ رہا تھا پانچ گھنٹے میں رنگ پور نہر سے تین لاکھ کیوسک پانی داخل ہونے والا ہے۔ایک سائیکل سوار پیڈل مارتے ہوئے بتا رہا تھا نہیں وہ کل دوپہر تک پہنچے گا۔ جانوروں کا چارہ کاٹنے والی مشین پر کھڑا ایک توندیلا شخص کہہ رہا تھا ابے سب بکواس ہے۔ انتظامیہ نے صرف بری الذمہ ہونے کے لیے آج شام تک شہر خالی کرنے کا الٹی میٹم دیا ہے۔میں خود نہر دیکھ کر آیا ہوں کوئی شگاف نہیں ہے۔۔
مگر لوگ نکل رہے تھے اور جوق در جوق نکل رہے تھے۔
شہر سے باہر لیہ جانے والے راستے پر پندرہ منٹ کے سفر کے بعد ایک فوجی ریلیف کیمپ دکھائی دیا۔ قطار میں کھڑی مقامی انتظامیہ اور فوج کی گاڑیاں۔ قدم قدم پر کھڑے پولیس والے۔ میں نے انہی میں سے ایک سے پوچھا کون آ رہا ہے۔کچھ پتہ نہیں سر ۔ابھی ایک ہیلی کاپٹر اترے گا اس میں سے کوئی بھی نکل سکتا ہے۔شہباز شریف ہے کہ سلمان تاثیر کہ گیلانی صاحب۔یہ تو افسرانِ بالا ہی بتا سکتے ہیں۔ہمیں آرڈر نہیں ہے ورنہ بتا دیتے۔
ہزاروں لوگ اس سمت سے ٹرکوں ، ٹریکٹر ٹرالیوں ، ویگنوں، بسوں ، سائیکلوں ، بیل گاڑیوں اور کاروں پر آرہے تھے اور یہ نہ ختم ہونے والا منظر تھا۔جنہیں سواری نہیں ملی وہ پیدل ہی استعمالی اشیا سے بھرے ہوئے پلاسٹک کے شاپنگ بیگ، چمڑے کے تھیلے ، اٹیچی کیس ، لوہے کے ٹرنکس یا پوٹلیاں سر پر رکھے چل رہے تھے۔
کیمپ کے انچارج کرنل منیر نے بتایا کہ یہاں چار ہزار لوگ ہیں۔میانوالی سے راجن پور تک فوج کے بارہ ریلیف کیمپ ہیں جن میں اب تک باون ہزار لوگ آچکے ہیں۔سول انتظامیہ کے کتنے کیمپ ہیں اور ان میں کتنے لوگ ہیں یہ آپ انہی سے پوچھیے۔
میں نے کرنل صاحب کے خیمے میں ہی بیٹھے ایک پولیس افسر سے پوچھا کون آرہا ہے۔اس نے کہا مجھے نہیں معلوم۔ساتھ والے نے کہا گورنر تاثیر آنے والے تھے لیکن دیر ہونے کی وجہ سے شاید نہ آسکیں۔
ایک پولیس افسر خیمے میں داخل ہوا۔سر مین روڈ پر جو سویلین انتظامیہ کا کیمپ ہے اس کے لوگ گورنر کی آمد کا سن کر سڑک پر آگئے ہیں اور ٹائر جلا رہے ہیں۔دونوں طرف کا ٹریفک رکا ہوا ہے۔
پینتالیس منٹ کے مذاکرات کے بعد مظاہرین نے ٹریفک کو راستہ دے دیا۔ ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد ہماری گاڑی لیہ پہنچ گئی۔سخت تھکن ہو رہی ہے۔میں اب سونا چاہ رہا ہوں۔کل صبح ہی معلوم کروں گا کہ لیہ کیوں ڈوبا۔دریا نے ڈبویا یا بے اعتدال انسانوں نے۔
شب بخیر۔۔۔۔۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/08/100811_flood_diary_wusat_1.shtml
دینے والا ہاتھ لینے والے میں تبدیل ہوگیا
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لیہ
بی بی سی اردو کے وسعت اللہ خان پاکستان میں آنے والے سیلاب سے متاثرہ علاقہ جات کے دورے کا احوال ایک ڈائری کی صورت میں بیان کریں گے۔ پیش ہے اس سلسلے کی دوسری کڑی
سوموار نو اگست( صبح آٹھ بجے تا شام ساڑھے چھ بجے)
دریا کی پہلی گزرگاہ کے بعد پھر دیہی آبادی کے جزیرے شروع ہوگئے
دو ہفتے پہلے لیہ زرعی طور پر پنجاب کے خوشحال اضلاع میں شامل تھا۔ تازہ سبزیوں، مویشیوں کی تعداد اور دودھ کی پیداوار کے حساب سے پنجاب کا تیسرا یا چوتھا بڑا ضلع ۔اب دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ میں بدل گیا ہے۔
پچھلی رات میرے نیم جاگتے ذہن نے صرف اتنا کیا کہ دریائی علاقے کے ایک بااثر سیاستداں فرید خاں میرانی سے رابطہ ہوگیا۔ میرانی صاحب پچیس برس پہلے علاقے سے رکنِ پارلیمان رہ چکے ہیں اور لیہ ڈسٹرکٹ کونسل بھی چلا چکے ہیں۔دو ہفتے پہلے تک دریائے سندھ کے کناروں پر اچھی خاصی زمین کے مالک تھے۔اب تاحدِ نگاہ پانی کے مالک ہیں۔
کلِک سیلاب ڈائری کی پہلی قسط
آج صبح میں نہا دھو کر میرانی صاحب کے گھر پہنچا۔ دریائی علاقے کا احوال جاننے کے لیے مائیکرو فون نکالنے ہی والا تھا کہ انہوں نے کہا ’ابھی کشتی میں چلیں گے سندھو کو سلام کرنے۔اس کے بعد شاید تمہیں مجھ سے بات کرنے کی ضرورت محسوس بھی نہ ہو‘۔
اس دوران اطلاع ملی کہ وزیرِاعظم گیلانی کا ہیلی کاپٹر بھی کالج گراؤنڈ میں اترنے والا ہے۔ اس گراؤنڈ کے قریب سے گذرتے ہوئے ہم شہر کی شمالی حد تک پہنچے۔ چار، پانچ فٹ اونچے بند کے دوسری جانب تاحدِ نگاہ پانی تھا۔ یہ بند لیہ شہر کے لوگوں نے سیلاب کی وارننگ ملتے ہی بنانا شروع کردیا تھا اور اسی کے سبب شہر بچ گیا۔ اسی بند کے قریب ضلعی محکمہ صحت کا ایک طبی کیمپ لگا ہوا تھا۔مبادا وزیرِ اعظم تشریف لے آئیں۔
انٹرمیڈیٹ ٹیکنالوجی کا جیسا استعمال میں نے سات گھنٹے کے اس آبی سفر کے دوران دیکھا کبھی نہیں دیکھا۔ پانچ بڑے خالی آئل ڈرم رسے سے جوڑ کر ان پر ایک ہماچا ( بان کی بڑی چارپائی) فٹ کردیا گیا۔ لیجیے کشتی تیار۔ اس پر دو بکریاں ، ایک بچہ اور ایک آدمی رواں دواں۔ اگر ایک آدمی کو سفر کرنا ہے تو صرف ٹائر کی ایک ٹیوب یا جیری کین ہی ذاتی کشتی کے طور پر کافی ہے۔ دو افراد لکڑی کے ایک چھوٹے شہتیر پر سوار ہاتھوں کے چپو چلاتے ہوئے جا رہے تھے۔
کیمپ تین خیموں پر مشتمل تھا۔ایک میں ایمرجنسی مریضوں کے لیے چارپائی بچھی ہوئی تھی۔ ساتھ والے خیمے میں ایک سفید پوش میز پر سلیقے سے دوائیں سجائی گئی تھیں۔ان میں گہرے نیلے رنگ کے وہ کیپسول بھی تھے جو تپِ دق کے مریضوں کو نو مہینے کے کورس میں دیے جاتے ہیں۔ میں نے پوچھا سانپ کے کاٹے کی ویکسین ہے۔جواب ملا ’بس راستے میں ہے۔لڑکا بھیجا ہوا ہے‘۔
برابر والے خیمے میں ایک صاحب جو غالباً ڈاکٹر ہی ہوں گے گلے میں سٹھیتکو سکوپ ڈالے مستعد بیٹھے تھے۔ مگر میز پر رکھے بلڈ پریشر چیک کرنے والے پمپ کو جانے کیوں آہستہ آہستہ دبا بھی رہے تھے۔ دو اہلکار ان کے دائیں بائیں ایستادہ تھے۔ تینوں نے سفید استری شدہ گاؤن پہنے ہوئے تھے۔سب کچھ بہترین تھا۔بس ایک شے کی کمی تھی ’مریض’۔۔۔۔۔۔۔ماحول سے لگ رہا تھا جیسے زرا دیر بعد کیمرہ ، فل لائٹ ، ایکشن اور پھر پیک اپ۔۔
یہ منظرِ دل پذیر دیکھنے کے بعد فرید خاں میرانی سمیت ہم چھ سات آدمی پیٹر کشتی میں سوار ہوئے۔ پیٹر کشتی اسے کہتے ہیں جو ٹیوب ویل کے انجن سے چلتی ہے اور اس انجن کو پیٹر کہا جاتا ہے کیونکہ خیال یہ ہے کہ اسے کسی پیٹر صاحب نے بنایا تھا۔اس انجن کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ آپ صرف مناظر سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں، شور کے سبب آپس میں بات نہیں کرسکتے۔
ہوا سے بھری ٹریکٹر کے ٹائر کی دو بڑی ٹیوبوں پر ایک بڑا تختہ باندھ دیا گیا اور کشتی بن گئی
انٹرمیڈیٹ ٹیکنالوجی کا جیسا استعمال میں نے سات گھنٹے کے اس آبی سفر کے دوران دیکھا کبھی نہیں دیکھا۔ پانچ بڑے خالی آئل ڈرم رسے سے جوڑ کر ان پر ایک ہماچا ( بان کی بڑی چارپائی) فٹ کردیا گیا۔ لیجیے کشتی تیار۔ اس پر دو بکریاں ، ایک بچہ اور ایک آدمی رواں دواں۔ ہوا سے بھری ٹریکٹر کے ٹائر کی دو بڑی ٹیوبوں پر ایک بڑا تختہ باندھ دیا گیا اور کشتی بن گئی ۔اگر ایک آدمی کو سفر کرنا ہے تو صرف ٹائر کی ایک ٹیوب یا جیری کین ہی ذاتی کشتی کے طور پر کافی ہے۔ دو افراد لکڑی کے ایک چھوٹے شہتیر پر سوار ہاتھوں کے چپو چلاتے ہوئے جا رہے تھے۔
دیہی علاقہ سیلاب کے ہاتھوں ابتلا زدگان کا وینس بنا ہوا ہے۔ جن راستوں اور گلیوں میں موٹر سائکلیں اور چھکڑے چلتے تھے اب صرف کشتی جا سکتی ہے۔ سفر کے دوران صرف وہ مکانات دکھائی دئیے جو اونچی جگہ پر ہونے کے سبب چھوٹے چھوٹے جزیروں کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ ہر دو چار گھروں کی حفاظت کے لیے ایک دو لوگوں کو پیچھے چھوڑ دیا گیا ہے۔
ان محافظوں نے ایک سے دوسرے جزیرے تک رابطے کے لیے نائلون کی رسی آر پار باندھ رکھی ہے جسے ہلا کر پیغام رسانی ہوسکتی ہے۔ کنارے سے کھانے پینے کی اشیا روز روز لانا ایک مصیبت ہے۔اس لیے بچ جانے والی پالتو مرغیاں پکڑ ، کاٹ ، پکا کر گزارہ ہو رہا ہے۔
جن راستوں اور گلیوں میں موٹر سائکلیں اور چھکڑے چلتے تھے اب صرف کشتی جا سکتی ہے۔ سفر کے دوران صرف وہ مکانات دکھائی دئیے جو اونچی جگہ پر ہونے کے سبب چھوٹے چھوٹے جزیروں کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ ہر دو چار گھروں کی حفاظت کے لیے ایک دو لوگوں کو پیچھے چھوڑ دیا گیا ہے۔ ان محافظوں نے ایک سے دوسرے جزیرے تک رابطے کے لیے نائلون کی رسی آر پار باندھ رکھی ہے جسے ہلا کر پیغام رسانی ہوسکتی ہے۔ کنارے سے کھانے پینے کی اشیا روز روز لانا ایک مصیبت ہے۔اس لیے بچ جانے والی پالتو مرغیاں پکڑ ، کاٹ ، پکا کر گزارہ ہو رہا ہے۔
لیکن علاقے کے چور بھی غافل نہیں ہیں۔ ان کا طریقۂ واردات بہت سیدھا سادہ ہے۔ دن میں وہ کشتی میں بیٹھ کر سروے کرتے ہیں۔کس مکان کی صرف ایک دیوار منہدم ہوئی ہے۔کونسا گھر خالی پڑا ہے۔ شام ڈھلے یہ چور خود کو مصیبت زدہ ظاہر کرکے کوئی بھی کشتی منہ مانگے داموں کرائے پر لیتے ہیں اور کسی بھی خالی گھر کو اپنا ظاہر کرکے اسکا بچا کھچا سامان لادتے ہیں اور کنارے پر آجاتے ہیں۔ اب چونکہ کوئی کام کی شے پیچھے نہیں رہی اس لیے چوری کی وارداتیں بھی کم ہوگئی ہیں۔
پیٹر کشتی گنے کی آدھی اونچائی تک ڈوبی ہوئی فصلوں، پانی سے سرنکالے درختوں اور جا بجا بکھرے رہائشی جزیروں کے اردگرد سے شمالاً جنوباً شرقاً غرباً گھومتی گھماتی ڈیڑھ گھنٹے بعد کھلے علاقے میں داخل ہوگئی۔تاحدِ نگاہ صرف اور صرف گدلا پانی پھیلا ہوا تھا۔کہیں ساکت تو کہیں چلتا ہوا۔دور بہت دور ایک لمبی لکیر ٹپائی دے رہی تھی۔میں نے پوچھا کیا اب ہم دریائے سندھ کے کنارے پر ہیں۔ آواز آئی دریائے سندھ کی مرکزی آبی گزرگاہ ابھی پندرہ بیس کلومیٹر پرے ہے۔ یہ پانی جو آپ دیکھ رہے ہیں یہ تو صرف دریا کا تھوکا ہوا غصہ ہے۔
کوئی پینتالیس پچاس منٹ مزید سفر کے بعد محسوس ہونے لگا کہ دریا کی بنیادی سیلابی گزرگاہ شروع ہوچکی ہے۔ بہتے پانی نے فولڈ ان فولڈ ہوتی لہروں کی صورت اختیار کرلی ہے اور جیسے جیسے کشتی آگے بڑھ رہی ہے پانی کی غراہٹ بھی بڑھتی جارہی ہے۔یہ سیلابی گزرگاہ اندازاً تین چار کیلومیٹر چوڑی تھی۔اس سے گذرنے کے بعد لہریں پھر تھمنے لگیں۔مجھے بتایا گیا کہ اس علاقے سے سندھو دریا چودہ گذرگاہوں میں آگے بڑھتا ہے۔آپ ابھی صرف ایک سے گزرے ہیں۔
جو لوگ دریائی نشیبی ، کچے کے علاقوں میں آباد ہیں وہ فطرتاً زراعت پیشہ نہیں بلکہ گلہ بان ہوتے ہیں۔لہذا کئی مقامات پر لوگ اس لیے بھی باہر نہیں نکلے کیونکہ کشتی والا ان کی مرغیاں اور دیگر جانور منتقل کرنے کو تیار نہیں تھا اور اگر تیار بھی تھا تب بھی نہیں نکلے ۔کیونکہ حکومت انسانوں کو تو کھانے اور کیمپ کی یقین دھانی کرا رہی تھی۔مویشیوں کے چارے اور رہائش کی اہمیت کا اندازہ کسی شہری بابو کو نہیں تھا۔
ساڑھے چار ہزار سال پہلے جو رگ وید یہاں سندھو دیوتا کے چرنوں میں بیٹھ کر لکھی گئی اس کے مطابق سندھو دریا نہیں ساگر ہے۔ جس نے بھی یہ جملہ لکھا اس نے یقیناً جولائی اگست کا سندھو دیکھ کر ہی رگ وید میں شامل کیا ہوگا۔ورنہ تو سندھو ہر سال مئی سے ستمبر تک زمین سے ہاتھا پائی کے بعد جب تھک جاتا ہے تو اگلے چھ ماہ بکل مار کر تعطیلات پر نکل جاتا ہے۔اور پھر بڑکیں مارتا ہوا واپس پلٹتا ہے۔
دریا کی پہلی گزرگاہ کے بعد پھر دیہی آبادی کے جزیرے شروع ہوگئے۔ ایک گھر میں تین مرد گذشتہ دس روز سے اس لیے بیٹھے تھے کیونکہ کوئی کشتی انکا ٹریکٹر دوسرے کنارے پر لے جانے کے لیے تیار نہیں تھی۔ دو کشتیاں بھینسوں سے لدی ہوئی گزریں۔ ان کے پیچھے ایک کشتی میں ان بھینسوں کے تین چار مالک لدے ہوئے تھے۔
شہر والوں کو یہ بات سمجھ میں آہی نہیں سکتی کہ دیہاتی بغیر مویشی گھر چھوڑنے پر کیوں تیار نہیں ہوتا۔یہ بات کیسے سمجھائی جائے کہ گائے ، بھینس ، بکری دراصل دیہاتی کا سیونگ بینک اکاؤنٹ ہے۔جب ضرورت پڑی کوئی مویشی بیچ دیا، جیسے ہم لوگ اے ٹی ایم مشین سے پیسے نکالتے ہیں۔
جو لوگ دریائی نشیبی ، کچے کے علاقوں میں آباد ہیں وہ فطرتاً زراعت پیشہ نہیں بلکہ گلہ بان ہوتے ہیں۔لہذا کئی مقامات پر لوگ اس لیے بھی باہر نہیں نکلے کیونکہ کشتی والا ان کی مرغیاں اور دیگر جانور منتقل کرنے کو تیار نہیں تھا اور اگر تیار بھی تھا تب بھی نہیں نکلے ۔کیونکہ حکومت انسانوں کو تو کھانے اور کیمپ کی یقین دھانی کرا رہی تھی۔مویشیوں کے چارے اور رہائش کی اہمیت کا اندازہ کسی شہری بابو کو نہیں تھا۔
لیہ کے سیلاب زدہ علاقوں سے تقریباً تین لاکھ افراد اور ساڑھے چار لاکھ جانور محفوظ کنارے تک خود پہنچے یا پہنچائے گئے۔لیکن ان جانوروں کو صرف چارے کے ساٹھ ہزار گھٹے ہی نصیب ہوسکے۔نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ہی ہفتے میں ان جانوروں کا وزن آدھا ہوگیا اور ہڈیاں نکل آئیں۔
لیہ کے سیلاب زدہ علاقوں سے تقریباً تین لاکھ افراد اور ساڑھے چار لاکھ جانور محفوظ کنارے تک خود پہنچے یا پہنچائے گئے۔لیکن ان جانوروں کو صرف چارے کے ساٹھ ہزار گھٹے ہی نصیب ہوسکے۔نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ہی ہفتے میں ان جانوروں کا وزن آدھا ہوگیا اور ہڈیاں نکل آئیں۔
ایسے ہی چند پھنسے ہوئے ضدی افراد کے لیے فرید خاں میرانی کچھ روٹیاں اور بسکٹوں کے ڈبے لے گئے تھے۔ واپسی کا سفر مکمل ہوتے ہوتے شام ہوگئی۔ ڈوبتے سورج کے ساتھ ہی پرندوں نے تازہ کھنڈرات کی منڈیروں ، پھونس کی ادھ گری چھتوں، بجلی کی بے جان تنی تاروں اور پانی سے آدھے باہر رھ جانے والے درختوں پر بیٹھنا شروع کردیا۔
مگرایک بات بڑی عجیب لگی۔سب پرندے چپ چاپ تھے۔ اور تو اور کوے بھی تاروں پر خاموش بیٹھے تھے۔۔۔
ساڑھے چھ بج چکے ہیں۔کشتی کے تختے پر بیٹھے بیٹھے کمر تختہ ہوچکی ہے۔ پسینے نے ٹی شرٹ پر سفید لکیریں چھوڑ دی ہیں۔اپنے آپ سے نفرت ہورہی ہے۔ ذرا ہوٹل کے کمرے میں جا کر نہا لوں۔ آٹھ بجے کے بعد پھر کچھ لوگوں کے پاس جانا ہے۔وہاں کیا ہوتا ہے۔کل ہی بتا پاؤں گا۔۔۔۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/08/100812_flood_diary_wusat_2.shtml
لئیہ میں ایک شام
بی بی سی اردو کے وسعت اللہ خان پاکستان میں آنے والے سیلاب سے متاثرہ علاقہ جات کے دورے کا احوال ایک ڈائری کی صورت میں بیان کر رہے ہیں۔ پیش ہے اس سلسلے کی تیسری کڑی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نو اگست، ساڑھے سات بجے شام
’لئیہ سے آگے کے حالات نہ جانے کیسے ہوں۔۔۔‘
حالانکہ آج صبح سے اب تک سوائے پیٹر کشتی میں بیٹھنے اور دریائے سندھ کے آرپار جانے کے کچھ نہیں کیا۔پھر بھی نمی، کشتی کے انجن کے شور اور راستے بھر پانی کی حکمرانی کے مناظر نے جسم اور ذہن کو شل کردیا ہے۔سوچتا ہوں جن چار پانچ لوگوں سے کچھ دیر میں ملنا ہے وہ ملاقات کل صبح تک ٹال دوں مگر ایسا نہیں کرسکتا۔ صبح لئیہ چھوڑنا ہے اور آگے کے حالات نہ جانے کیسے ہوں۔
میں ایک گھر کے باہر گلی میں بچھی کرسیوں پر چار پانچ لوگوں کے درمیان بیٹھا ہوں۔ایک مقامی سرکاری افسر ہے۔ایک سابق سیاستداں۔ ایک مسلم لیگ ق سے ہے۔ایک پیپلز پارٹی کا متحرک کارکن ہے۔ ایک غیرجانبدار مبصر ہے اور ایک ان میں سے کسی کا دوست ہے۔
چھوٹے شہروں میں یہ بڑی خوبی ہوتی ہے کہ سیاسی و سرکاری کاموں سے فراغت اور نظریاتی فرق کے باوجود شام کو یہ تمیز مٹ جاتی ہے اور سب ایک دوسرے سے کھل کر ہنسی مذاق اور سنجیدہ مباحثہ کرکے دن بھر کی تھکن کا بدلہ لے لیتے ہیں۔ایسی بیٹھکیں بڑے شہروں میں عنقا ہوتی جا رہی ہیں۔
بہرحال دو گھنٹے سے زائد کی اس نشست میں کئی معلومات حاصل ہوئیں۔جیسے یہی کہ اس ملک میں محکمہ موسمیات اور فلڈ کمیشن ہوتے ہوئے بھی لئیہ کی انتظامیہ کو سیلاب کی آمد اور ہنگامی تیاریوں کے لیے پہلی وارننگ صرف تین دن پہلے یعنی ستائیس جولائی کو ملی۔انہی تین دنوں میں شہریوں نے اپنی مدد آپ کے تحت شہر کے شمالی حصے کی جانب لشٹم پشٹم تین میل طویل ایک بند بنایا۔ لئیہ اگرچہ دریائی شہر ہے۔ لیکن انتظامیہ کے پاس کسی بھی ناگہانی آفت سے نمٹنے کے لیے تین کشتیاں ہیں۔جبکہ پچاس کے لگ بھگ کشتیاں نجی ملکیت میں رہتی ہیں۔
جب یکم اگست کو سیلاب نے دریائی کنارے توڑ کر شہر کی جانب بڑھنا شروع کیا تو لاکھوں لوگوں کے پاس سوائے اسکے کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ خود کو اور مال مویشیوں کو بچانے کے لیے اپنا ہی دماغ لڑائیں اور یہ سوچیں کہ انہیں کہاں جانا ہے۔ تین سرکاری اور پچاس کے لگ بھگ پرائیویٹ کشتیاں ایک حد تک ہی مددگار ثابت ہوسکتی تھیں۔گو سیلاب آنے کے تین چار روز بعد فوج کی بھی آٹھ کشتیاں ریسکیو کے کام میں جٹا دی گئیں۔ لیکن انہیں آرڈر تھا کہ صرف لوگوں کو بٹھائیں۔جانوروں کو انکے حال پر چھوڑ دیں۔حتیٰ کہ جس نے کشتی میں بیٹھنے سے پہلے ایک مرغی بھی گود میں لے لی اسے بھی یہ چوائس دی گئی کہ یا تو مرغی چھوڑ دو ورنہ اترجاؤ۔
مجھے بتایا گیا کہ انتظامی عدم دلچسپی کی یہ صورت ہے کہ لئیہ میں بندوں کی دیکھ بھال کے ذمہ دار ایگزیکٹو انجینیئر کا دفتر تونسہ میں ہے جبکہ تونسہ دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر ہے اور لئیہ بائیں کنارے پر
سِول انتظامیہ کا دعوی ہے کہ اس کی دسترس میں جو کچھ تھا کیا گیا۔ فوج نے اپنے طور پر مدد کی اور با اثر مقامی سیاستدانوں نے اپنے حلقے کے دیہاتوں سے لوگوں کو نکالنے کے لیے خاصا تعاون بھی کیا لیکن ہر ادارہ اور شخص باہمی ربط کے بغیر اپنے اپنے طریقے اور دماغ کے ساتھ کام کرتا رہا۔ یہ جانے بغیر کہ اس طرح کی آفات سے صرف اجتماعی حکمتِ عملی کے ذریعے ہی نمٹا جاسکتا ہے۔چنانچہ کام سے زیادہ ’سب سے پہلے میں نے یہ کیا‘۔’ہمارا ادارہ پہلے پہنچا‘ اور ’ہم تو پہلے ہی سے کہہ رہے تھے‘ جیسے فقروں پر مبنی مقابلے بازی نے فوری نوعیت کی امدادی کارروائی کی اجتماعی روح کو اور مجروح کیا۔
اس محفل میں ایک صاحب نے یہ تجزیہ بھی کیا کہ کرائسِس مینجمنٹ اور قدرتی آفات سے نمٹنا ایک سائنسی کام ہے لیکن ہم لوگ قدرتی آفات سے بھی ایسے جذباتی انداز میں نمٹنے کے عادی ہیں جیسے سیلاب نہ ہو ہمارا کوئی ذاتی یا سیاسی مخالف ہو۔۔۔
مجھے بتایا گیا کہ انتظامی عدم دلچسپی کی یہ صورت ہے کہ لئیہ میں بندوں کی دیکھ بھال کے ذمہ دار ایگزیکٹیو انجینیئر کا دفتر تونسہ میں ہے جبکہ تونسہ دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر ہے اور لئیہ بائیں کنارے پر۔
دن بدن حالت خطرناک ہوتے جا رہے ہیں۔۔۔
سیلاب سے بچاؤ اور حفاظتی بندوں کی دیکھ بھال اور آبپاشی سے متعلق نظم و نسق کی ذزمہ دار صوبائی حکومت ہوتی ہے۔صوبہ پنجاب جس کی آبادی آٹھ کروڑ کے لگ بھگ ہے، جہاں پانچ بڑے دریا اور بے شمار قدرتی ندی نالے ہیں اور جہاں پچھلے سو برس میں متعدد تباہ کن دریائی سیلابوں کی باقاعدہ تاریخ ہے، وہاں حالت یہ ہے کہ رواں مالی سال کے صوبائی بجٹ میں سیلاب سے بچاؤ کے انتظامات کی مد میں صرف دس کروڑ سینتیس لاکھ روپے مختص کیے گئے اور یہ پیسہ بھی سیلاب سے بچاؤ کی دو نئی اور تین پرانی سکیموں کے لیے مختص ہوا۔ی ہ رقم گذشتہ مالی سال میں مختص کی گئی رقم سے بھی ڈھائی کروڑ روپے کم تھی۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ جس کام کو برسوں ترجیحاتی فہرست میں سب سے نیچے رکھا گیا اسکے نتیجے میں سیلاب نے بے بس آنکھوں کے سامنے پنجاب کے سات اضلاع کو تاراج کرکے رکھ دیا۔ صرف لئیہ میں ایک لاکھ نوے ہزار ایکڑ پر لگی کاشت برباد ہوگئی اور مکانات و فصلوں کی تباہی کا ابتدائی تخمینہ سات ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو حکومتِ پنجاب کو سات اضلاع (میانوالی، بھکر، لئیہ، مظفر گڑھ، ڈیرہ غازی خان، راجن پور اور رحیم یار خان) میں زندگی و زراعت کی بحالی کے لیے کم از کم پچاس ارب روپے درکار ہیں۔شائد ایسے موقع پر ہی تو کہا جاتا ہے کہ بعض اوقات ہاتھ سے لگائی گانٹھ کو دانتوں سے کھولنا پڑتا ہے۔
یہ مجلس جو ہنسی مذاق اور فقرے بازی سے شروع ہوئی سنجیدگی کے راستے سے ہوتی ہوئی اجتماعی خاموشی پر منتج ہوئی۔
جب یہ اعداد و شمار ہم سب سکتے کے عالم میں سن رہے تھے تو ایک صاحب نے ماحول بدلنے کے لیے لقمہ دیا کہ اگر حکومتیں اسی طرح ترجیحات مرتب کرتی ہیں تو پھر گیلانی یا شریف کی کیا ضرورت ہے۔ یہی کام لئیے کا ننگا ملنگ بھی تو اسی خوش اسلوبی اور ذہانت سے کرسکتا ہے۔
یہ مجلس جو ہنسی مذاق اور فقرے بازی سے شروع ہوئی سنجیدگی کے راستے سے ہوتی ہوئی اجتماعی خاموشی پر منتج ہوئی۔کل صبح ہر صورت میں لئیہ چھوڑنا ہے۔ ورنہ آگے کا شیڈول گڑبڑ ہوسکتا ہے ۔۔۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/08/100814_flood_diary_wusat_3.shtml
Some pictures of the flood in Muzaffargarh
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/08/100812_flood_muzafargudh.shtml
سانپوں کے درمیان زندگی
!
بی بی سی اردو کے وسعت اللہ خان پاکستان میں آنے والے سیلاب سے متاثرہ علاقہ جات کے دورے کا احوال ایک ڈائری کی صورت میں بیان کر رہے ہیں۔ پیش ہے اس سلسلے کی چوتھی کڑی جو وسعت اللہ خان نے بکھر سے بھیجی ہے۔
منگل دس اگست
کئی متاثرین بتتے ہیں کہ مال مویشی کو کیمپوں میں رکھنا ممکن نہیں
جب آپ کو یہی معلوم نہ ہو کہ کسں جگہ کتنی دیر ٹہرنا ہے تو پھر آپ ہوٹل کے سٹاف یا دھوبی کو کپڑے دھونے کے لیے بھی نہیں دے سکتے۔اس لیے مجھے صرف پانچ گھنٹے کی نیند کے بعد خود کو جیسے کیسے اٹھانا پڑگیا۔ آس پاس کی دکانیں بند اور ہوٹل میں واشنگ پاؤڈر یا کپڑے دھونے کا صابن ندارد۔ لہذا پہلے نہایا اور پھر نہانے والے صابن سے ایک جوڑا دھوکر کھڑکی میں لٹکا دیا اور دعا کرنے لگا کہ سورج آج اپنے وقت سے تیس منٹ پہلے نکل آئے تو کتنا اچھا ہو۔ مگر یہ ہو نہ سکا ۔ڈیڑھ گھنٹے بعد نیم گیلے کپڑے بیگ میں ڈالنے پڑے۔
ساڑھے نو بجے ہوٹل چھوڑا اور گاڑی کا رخ بھکر کی جانب موڑ دیا۔ لیکن بھکر سے پہلے لئیہ کی تحصیلٰ پڑتی ہے اور کروڑ لال عیسن میں ڈاکٹر اشو لال رہتے ہیں۔اگر دورِ حاضر میں سرائیکی زبان کے پانچ ہراول شعرا کے نام نکالے جائیں تو یہ ممکن نہیں کہ اشو لال کا نام اس فہرست میں شامل نہ ہو۔اشو لال دریائے سندھ کے عشق میں اتنے گرفتار ہیں کہ انہوں نے اپنے ایک مجموعے ’سندھ ساگر نال ہمیشاں‘ میں صرف دریا سے متعلق نظمیں جمع کردی ہیں:
کوئی دیوتا ہئی جیہڑا سمدا نہی
کوئی دیوتا ہے جیہڑا ستا پئے
( کوئی دیوتا ( سندھو دریا) ہے جو نہیں سوتا۔کوئی دیوتا ہے جو سو رہا ہے)
پچاس کے پیٹے میں پہنچنے والے ڈاکٹر اشو لال کے بقول انکے بچپن تک سندھو دیوتا کی تعظیم کا یہ عالم تھا کہ کوئی بہتے پانی میں پیشاب کرنے کی جرات نہیں کرتا تھا۔ پھر لوگوں نے دریا کو دریا بدر کرنے کے لیے لالچ کے پھاوڑے سے اتنے زخم لگائے کہ وہ باؤلا ہوگیا۔ دریا سے اس کا راستہ چھین لیا گیا۔حالت یہ ہوگئ کہ مغرب کی جانب بہنا چاہے تو راہ میں کھیت کھلیان آجائیں، شمال کی طرف سے راستہ بنانا چاہے تو بستیاں گریبان پکڑ لیں۔جنوب کی جانب سے فرار ہونا چاہے تو سڑک، حفاظتی بندوں کی بھیڑ چال اور کرپشن کا کتا اسکا دامن پکڑ لے۔آخر کتنا صبر کرتا۔
چنانچہ ایک سندھو نے اپنی جان پچانے کے لیے انسان کی لامحدود لالچ کو گلے سے پکڑلیا اور بہاؤ میں گھسیٹتا ہوا لے گیا۔ لیکن دریا انسان کی طرح ظالم اور بے مروت نہیں ہوتا۔ یہی سندھو اپنے ساتھ پہاڑوں سے نئی توانا مٹی کا تحفہ بھی لایا ہے۔اس تازہ مٹی سے اٹھنے والی فصلیں کچھ ہی عرصے میں زخم مندمل کردیں گی اور انسان پھر ناشکرے پن کے راستے پر چل پڑے گا۔
ڈاکٹر اشو لال سے گھنٹے بھر ملاقات کے بعد شیخ ثنا اللہ کی دکان پر پہنچا۔ شیخ صاحب تحصیل میں ٹیوب ویل، جنریٹرزاور سپئر پارٹس کے سب سے بڑے ڈیلر ہیں۔ لیکن ان دنوں شیخ صاحب کا اپنے کام سے زیادہ کسی کے کام آنے میں جی لگ رہا ہے۔شیخ ثنا اللہ اپنے دو بھائیوں اور بیٹوں کے ساتھ پانچ اگست سے روزانہ ایک ہزار سیلاب زدگان کو دوپہر اور شام کا گرما گرم تازہ کھانا فراہم کر رہے ہیں اور پورا رمضان یہی کرنے کا ارادہ ہے۔ چونکہ یہ کوئی چٹ پٹی سٹوری نہیں ہے اس لیے میڈیا کی نظر میں بھی نہیں ہے۔ وزیرِ اعلی، وزیرِ اعظم اور اعلی بیورو کریٹس کی’آنیوں جانیوں‘ سے فرصت ملے تو شیخ ثنا اللہ جیسے خاموش ہیروز کی جانب بھی نگاہ اٹھے۔
شیخ ثنا اللہ اپنے دو بھائیوں اور بیٹوں کے ساتھ پانچ اگست سے روزانہ ایک ہزار سیلاب زدگان کو دوپہر اور شام کا گرما گرم تازہ کھانا فراہم کر رہے ہیں اور پورا رمضان یہی کرنے کا ارادہ ہے۔ چونکہ یہ کوئی چٹ پٹی سٹوری نہیں ہے اس لیے میڈیا کی نظر میں بھی نہیں ہے۔ وزیرِ اعلی، وزیرِ اعظم اور اعلی بیورو کریٹس کی’آنیوں جانیوں‘ سے فرصت ملے تو شیخ ثنا اللہ جیسے خاموش ہیروز کی جانب بھی نگاہ اٹھے۔
شیخ صاحب سے ملاقات کے بعد ایک اور ہیرو سے ملاقات ہوئی۔ سابق تحصیل ناظم سجاد خان سیہڑ موجودہ رکنِ قومی اسمبلی بہادر خان سیہڑ کے چھوٹے بھائی ہیں۔جب سیلاب نے کروڑ کے دروازے کو اپنی دستکوں سے توڑ ڈالا تو ہزاروں لوگ پانی میں پھنس گئے۔ سجاد خان نے کراچی سے ایک لانچ اور تین کشتیاں منگوائیں۔ لگ بھگ پچاس مقامی کشتیوں کو کرائے پر حاصل کیا اور اپنے ساٹھ ستر ساتھیوں سمیت چھ دن میں علاقے کے ہزاروں لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔اس بیچ تین دن تک سجاد خان خود لانچ چلاتے رہے اور وہ بھی کچھ کھائے پیے بغیر۔ انکے بڑے سے گھر کے احاطے میں دونوں بھائی سینکڑوں پناہ گزینوں سے دن رات گھرے رہتے ہیں۔کسی کو آٹا ، کسی کو کھانا، کسی کوخیمہ ، کسی کو تسلی ، کسی کو دعا اور کسی کو سفارشی پرچی درکار ہوتی ہے۔
سجاد خان کے بڑے بھائی بہادر خان کو یہ فکر لاحق تھی کہ وفاقی وزیرِ مملکت برائِے پارلیمانی امور مہرین انور راجہ کے اس پیغام کا کیا کریں کہ شام کو وہ اسلام آباد سے خوراک کے پانچ سو پیکٹوں کے ساتھ پہنچیں گی اور اگر مقامی طور پر کسی ویڈیو میکر کا انتظام ہوجائے تو بہت اچھا ہوگا۔
وزیر آندا پے ، وزیر آندا پے ۔۔۔ یہ خبر آناً فاناً پھیل گئی۔ میں سوچ رہا تھا کہ کیا منظر ہوگا جب وزیرہِ موصوفہ پانچ ہزار پناہ گزینوں کے ہجوم میں خوراک کے پانچ سو پیکٹ بانٹیں گی۔اسکے بعد میں تو بکھر کی طرف روانہ ہوگیا ۔ بعد میں سنا کہ پانچ سو پیکٹوں کی تقسیم کے درمیان ہلڑ بازی ہوئی لیکن مووی میکر نے بہرحال وزیرہ موصوفہ کی فلم بنا کر انکے حوالے کر دی۔
بکھر کروڑ لال عیسن سے لگ بھگ پچاس منٹ کی مسافت پر ہے۔ راستے میں بارش سے سبز صحرائے تھل میں کچھ پناہ گزینوں نے خیمے لگائے ہوئے تھے۔یہ خانہ ساز خیمے بہت عجیب سےتھے۔ آمنے سامنے چار چار چارپائیاں اوپر نیچے مضبوطی سے باندھ کر ان پر پرانی موٹی چادریں ڈال دی گئی تھیں۔لیجیے خمیہ تیار ہوگیا ۔باہر کچھ جانور بندھے ہوئے تھے۔
بکھر کا لگ بھگ پچاس کیلومیٹر طویل دریائی ساحل زیرِ آب آیا ہے اور وہاں بھی کچے کے دیہاتوں میں تباہی کی وہی کہانی ہے جو بلتستان سے ٹھٹھے تک پھیلی ہوئی ہے۔
میں نے ایک پناہ گزین سے دریافت کیا کہ یہاں تو بارش اور گرمی کے سبب سانپ بچھو بھی وافر ہوں گے اور تمھارے ساتھ بچے بھی ہیں۔کسی سرکاری کیمپ یا نہر کے بند پر رہ لیتے تو زیادہ محفوظ رہتے۔ مجھے یہ جواب ملا۔
’گال تہاڈی ٹھیک ہے سوہنا پر مال دا کیا کروں۔ کیمپ وچ بندیاں کو روٹی نئیں لبھدی تاں مال کو کیویں لبھسی۔نہر دے بند تے تاں نہ بندیاں کو روٹی ملدی اے نہ مال کوں۔اتھاں کھلے میدان وچ گھٹ کنوں گھٹ مال تاں رج ویندے۔اتھاں نانگ بہوں ہن۔کل میں ڈو اپنے ہتھیں مارن۔اصل مسئلہ مال دا اے۔بچے کو نانگ پے ای ونجے تاں ڈوجھا جم پوسی ۔پر مال گیا تاں اساں سارے مر ویسوں ۔‘
( بات آپ کی درست ہے لیکن جناب میں اپنے مویشیوں کا کیا کروں؟ کیمپ میں تو انسانوں کو خوراک نہیں ملتی جانوروں کو کون پوچھے گا۔جبکہ نہر کے بند پر نہ ہمیں روٹی ملے گی نہ ہمارے جانوروں کو۔یہاں کھلے میدان میں کم از کم جانوروں کا پیٹ تو بھر جاتا ہے۔ سانپ یہاں بہت ہیں۔ کل ہی دو اپنے ہاتھ سے مارے ہیں۔اصل مسئلہ مویشیوں کا ہے۔ بچے کو سانپ نے کاٹ لیا تو ایک اور مسئلہ پیدا ہوجائے گا۔ لیکن مویشی نہ رہے تو ہم سب مرجائیں گے ۔‘
بکھر شہر میں ڈاکٹر افضل دھاندلہ سے ملاقات ہوئی جو انیس سو ترانوے کے انتخابات میں مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر اٹھاسی ہزار ووٹ لے کر بھی ہارگئے۔ڈاکٹر صاحب نے سیاست سے جزوی توبہ کرلی اور سماجی خدمت کے میدان میں کود گئے۔انہوں نے ملتے ہی شاکر شجاع آبادی کا یہ شعر سامنے رکھ دیا۔
ڈوئیں موئے ہاں شاکر پانی توں
تیکو ترہے مارے، ساکوں چھل مارے
(ہم دونوں کو پانی نے ہلاک کردیا شاکر۔تجھے پیاس نے تو ہمیں سیلاب نے مار ڈالا)
بکھر کا لگ بھگ پچاس کیلومیٹر طویل دریائی ساحل زیرِ آب آیا ہے اور وہاں بھی کچے کے دیہاتوں میں تباہی کی وہی کہانی ہے جو بلتستان سے ٹھٹھے تک پھیلی ہوئی ہے۔
شام سات بجے ہم بکھر کو الوداع کہہ رہے ہیں۔میانوالی تک لگ بھگ ڈھائی گھنٹے کا سفر بتایا گیا ہے۔ یہ کہانی کل سہی ۔۔۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/08/100815_flood_diary_wusat_4.shtml
اس طرح تو ہوتا ہے !
بی بی سی اردو کے وسعت اللہ خان پاکستان میں آنے والے سیلاب سے متاثرہ علاقہ جات کے دورے کا احوال ایک ڈائری کی صورت میں بیان کر رہے ہیں۔ پیش ہے اس سلسلے کی پانچویں کڑی جس میں وسعت اللہ خان بھکر کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان اور میانوالی جاتے ہیں۔
بدھ دس اگست ( میانوالی۔ ایک بجے شب )
جنوبی پنجاب کے بہت سے علاقے سیلاب سے متاثر ہیں
گزشتہ شام سات بجے بھکر سے نکلنے کے بعد اندازہ یہ تھا کہ ڈھائی گھنٹے میں میانوالی پہنچ جائیں گے۔ لیکن وہ دل ہی کیا جو سیدھی راہ پر چلے۔کہنے لگا ڈیرہ اسماعیل خان صرف چالیس کلو میٹر دور ہے اس کی جھلک دیکھتے ہوئے میانوالی نکل لو تو کیا برا ہے۔دماغ نے کہا صراطِ مستقیم پر چلتے رہو روٹ بدلنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ لیکن دل نے دماغ کو دھکا دے کر سٹیرنگ سنبھال لیا اور گاڑی ملتان میانوالی روڈ سے ڈیرے جانے والی سڑک پر مُڑ گئی۔
بھکر سے دریا خان جانے والی سڑک پر دونوں جانب ہرے بھرے کھیت اور درختوں کے جھنڈ دیکھ کر جی خوش ہوگیا۔ کم ازکم کچھ زمین تو ایسی ہے جس نے سیلاب کا پانی نہیں چکھا۔ لیکن جیسے ہی گاڑی نے ایک بند عبور کیا بائیں ہاتھ پرمنظر بدل گیا۔گدلے سیلابی پانی نے زمین کا محاصرہ کر رکھا تھا اور کپاس کے لاتعداد پودے اس پانی میں سے بمشکل سر نکالے بے چارگی سے دیکھ رہے تھے۔ تقریباً بیس منٹ تک یہ منظر گاڑی کے ساتھ ساتھ دوڑتا رہا اور سندھو دریا کا پل آگیا۔اس طرف بورڈ لگا ہوا تھا ’خدا حافظ پنجاب پولیس‘۔دوسری جانب ٹیکس کے بوتھس سے پہلے بورڈ لگا ہوا تھا ’خوش آمدید خیبر پختون خواہ‘ اور برابر میں ایک بورڈ پر لکھا تھا ’یہاں پر اندھا ڈولفن کا نظارہ ہوتا ہے‘۔ تذکیر و تانیث کی تبدیلی سے یقین آگیا کہ صوبہ بدل چکا ہے۔
پنجاب پولیس کے ایک جوان نے عین پل کے درمیان گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا اور پوچھا ’ کدھر ؟‘ میں نے جواب دیا ’ادھر !‘ کہنے لگا ٹھیک ہے ۔۔۔چار گز دور صوبہ پختونخواہ پولیس کی میز لگی ہوئی تھی۔ کہاں سے تشریف لا رہے ہیں ؟ جی بھکر سے ! کہاں جا رہے ہیں ؟ جی ڈیرہ اسماعیل خان ؟ کیوں ؟ سیلاب دیکھنے ؟ کیا بھکھر میں سیلاب نہیں ملا ؟ جی ملا بس سوچا کہ پختون خواہ بھی دیکھ لیں ! زنجیر گرا دی گئی اور گاڑی بیس روپے ٹیکس دے کر پختون خواہ میں داخل ہوگئی۔
منطق یہ ہے کہ دہشت گرد موبائیل استعمال کرتے ہیں۔ میں سوچنے لگا کہ دہشت گرد تو کپڑے بھی پہنتے ہیں۔جوتا بھی پہنتے ہیں۔کھانا بھی کھاتے ہوں گے۔ موبائیل فون بند کرنے والی انتظامیہ کو آخر یہ خیال کیوں نہ آیا؟
پل ختم ہوتے ہی بائیں جانب کے پشتے اور پشتے سے نیچے پناہ گزیں خیموں کی طویل قطار گاڑی کے ساتھ ساتھ دوڑ رہی تھی۔فوج کا میڈیکل کیمپ بھی نظر آیا۔ ڈیرہ اسماعیل خان کی حدود میں داخل ہوتے ہی موبائیل فون کے سگنلز غائب ہوگئے۔شہر کے عین وسط میں جس حجرے میں ہم تھوڑی دیر کے لیے چائے پینے رکے وہاں پر معلوم ہوا کہ موبائیل سگنلز کا شہری حدود میں کئی ماہ سے داخلہ ممنوع ہے۔
منطق یہ ہے کہ دہشت گرد موبائیل استعمال کرتے ہیں۔ میں سوچنے لگا کہ دہشت گرد تو کپڑے بھی پہنتے ہیں۔جوتا بھی پہنتے ہیں۔کھانا بھی کھاتے ہوں گے۔ موبائیل فون بند کرنے والی انتظامیہ کو آخر یہ خیال کیوں نہ آیا؟ اور فیصلہ سازوں کو یہ خیال کیوں نہ آیا کہ تباہ کن سیلاب کے پے درپے حملوں کے بعد مقامی لوگ کس طرح موبائیل فون کے بغیر ایک دوسرے کا حال احوال اور تازہ صورتحال معلوم کرتے ہوں گے۔موبائیل سگنلز غائب ہونے سے میرا دم گھٹنے لگا۔ یوں ڈیرہ اسماعیل خان میں رات گزارنے کا خیالِ موہوم بھی سگنلز کی طرح غائب ہوگیا۔
لگ بھگ تین گھنٹے کے سفر کے بعد رات ساڑھے بارہ بجے میانوالی میں داخل ہوئے۔ہو کا عالم ہے۔اگلا ایک دن اس شہر میں گزارنا ہے جہاں مغرب کے بعد بازار بند ہوجانے کی مستحکم روایت ہے
حجرے میں موجود ایک شخص نے بتایا کہ لکی مروت سے عیسیٰ خیل تک کی سڑک پر پانی کے سبب ٹریفک بند ہے۔اس لیے اگر آپ واقعی اس وقت میانوالی جانے پر بضد ہیں تو پھر دریا خان سے بیچ کی سڑک کے ذریعے ہائی وے پر نکل سکتے ہیں۔
دوبارہ دریائے سندھ کے بل پر پہنچے تو پنجاب پولیس نے گاڑی کی مفصل تلاشی لی اور پوری تفصیل سرکاری رجسٹر میں درج کی۔ایک سپاہی نے کہا دہشت گردی کے بعد سے ایسا کرنا پڑتا ہے۔
لگ بھگ تین گھنٹے کے سفر کے بعد رات ساڑھے بارہ بجے میانوالی میں داخل ہوئے۔ہو کا عالم ہے۔اگلا ایک دن اس شہر میں گزارنا ہے جہاں مغرب کے بعد بازار بند ہوجانے کی مستحکم روایت ہے۔صبح دریائے سندھ کا بایاں کنارہ چھوڑ کر کیا دائیں کنارے پر چڑھ سکیں گے ؟ کالا باغ جاسکیں گے ؟ کچھ نہیں معلوم۔ تھکن سے دماغ شل ہورہا ہے۔برابر کے کمرے سے لوک موسیقی بلند آواز میں ہمسائیوں کو بانٹی جا رہی ہے۔ لیکن کچھ نہیں کیا جاسکتا۔
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں ! شب بخیر۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/08/100816_flood_diary_wusat_5.shtml
جب دریا آزاد ہوا !
بی بی سی اردو کے وسعت اللہ خان پاکستان میں آنے والے سیلاب سے متاثرہ علاقہ جات کے دورے کا احوال ایک ڈائری کی صورت میں بیان کر رہے ہیں۔ پیش ہے اس سلسلے کی چھٹی کڑی جس میں وسعت اللہ خان میانوالی کے بعد کالا باغ جاتے ہیں۔
جمعہ تیرہ اگست
دریائے سندھ کے پانی نے کالا باغ کے سبزیاں، جوار، باجرہ، چاول اور دالیں پیدا کرنے والے کھیتوں کو ریت ملی مٹی سے مہربند کردیا ہے
کل دن بھر میانوالی میں کوئی خاص کام نہیں کرسکا۔صرف مرکزِ شہر کا چکر لگایا۔میانوالی ایک ثقافتی ٹی جنکشن پر واقع ہے جہاں اکثریتی اعوان اور نیازی برادریاں سیاسی طور پر ہم آہنگ ہوں نہ ہوں مگر پنجاب، صحرائے تھل اور خیبر پختون خواہ کے لسانی و عمرانی اثرات ایک دوسرے سے گلے ضرور ملتے ہیں۔
شہر کے عمومی ماحول سے لگتا ہی نہیں کہ دریائے سندھ کے دوسرے کنارے پر واقع کالاباغ اور تحصیل عیسیٰ خیل میں سیلاب نے زندگی پلٹ دی ہوگی۔نہ چندہ جمع کرنے والوں کا سٹال، نہ نگاہوں میں آنے والی امدادی رسد کی نقل و حرکت۔البتہ مقامیوں کی عمومی گفتگو میں ضرور موجِ تشویش کبھی کبھی ابھر آتی ہے۔
آج صبح دس بجے کالا باغ کی جانب روانگی ہوئی۔میانوالی سے لگ بھگ چالیس بیالیس کلومیٹر پر دریائے سندھ کے کنارے پہرہ دینے والی آخری پہاڑی پر بسا ہوا کالا باغ دور سے ایک چھوٹا سا قصبہ نظر آتا ہے۔لیکن اس کا دامن کئی تاریخ نے پکڑ رکھا ہے۔
بزرگ سیاسی کارکنوں کو کالا باغ نواب امیر محمد خان کے دورِ سخت گیر کی یاد دلاتا ہے جب ساٹھ کے عشرے میں پورا مغربی پاکستان گورنر نواب صاحب کی گھنی نوکیلی مونچھوں کی الگنی سے اس طرح معلق تھا کہ ایوب خان کو بھی اپنا تخت ہلتا محسوس ہوتا تھا۔لیکن نواب صاحب بعد از سبکدوشی کسی دل جلے کے ہاتھوں نہیں اپنے ہی ایک فرزند کی گولی کا نشانہ بنے۔
ستر کے عشرے کے ترقی پسندوں کو کالا باغ نواب خاندان کے جورو ستم کے خلاف اٹھنے والی مقامی عوامی تحریک بغوچی کی یاد دلاتا ہے۔جو بظاہر دبا دی گئی لیکن اس کے اثرات نے بلاخر نوابین کو روایتی کروفر سمیت آسمان سے اتار کر زمین پر کھڑا کردیا۔ چھوٹے صوبوں کے قوم پرستوں کو یہ شہر اس متنازعہ ڈیم کی یاد دلاتا ہے جو نہ بنا ہے نہ شاید کبھی بنے گا۔
جب جیپ پچاس منٹ کے سفر کے بعد کالا باغ میں داخلے کے پل پر پہنچی تو عجیب و غریب سا ماحول تھا۔انیس سو اٹھائیس میں انگلستان کے مڈلینڈ کے کارخانوں میں ڈھلنے والا یہ پل اگر دنیا کا نہیں تو کم ازکم جنوبی ایشیا کا واحد ریلوے برج ہے جس پر سوائے ریل کے ہر سواری چلتی ہے حالانکہ یہ اب سے چھبیس برس پہلے اپنی تکنیکی عمر پوری کر چکا ہے۔
اگر نہیں بدلا تو کالا باغ کی دہلیز پر بہنے والا دریائے سندھ نہیں بدلا۔چشمہ اور جناح بیراج بھی اس منہ زور کے پاؤں میں بیڑی نہ ڈال سکے۔
جب جیپ پچاس منٹ کے سفر کے بعد کالا باغ میں داخلے کے پل پر پہنچی تو عجیب و غریب سا ماحول تھا۔انیس سو اٹھائیس میں انگلستان کے مڈلینڈ کے کارخانوں میں ڈھلنے والا یہ پل اگر دنیا کا نہیں تو کم ازکم جنوبی ایشیا کا واحد ریلوے برج ہے جس پر سوائے ریل کے ہر سواری چلتی ہے حالانکہ یہ اب سے چھبیس برس پہلے اپنی تکنیکی عمر پوری کر چکا ہے۔
شروع میں موٹا موٹا لکھا ہے کہ یہ پل خطرناک ہے اور ہر قسم کے ٹریفک کے لیے بند ہے۔اس کے باوجود بمپر ٹو بمپر ٹریفک رواں ہے۔کالا باغ والے بھی عجیب ہیں۔جب اس پل سے رپٹ کر کچھ لوگ دریا میں جاگرتے ہیں تو عوام اسے بند کرنے کے لیے مظاہرے کرتے ہیں۔جب پل بند ہوجاتا ہے تو کچھ عرصے بعد اسے کھولنے کے لیے جلوس نکالتے ہیں۔
ان دنوں اس وضع دار ہانپتے کانپتے ضعیف پل پر ٹریفک کا دباؤ اس لیے بھی زیادہ ہے کہ اس سے کچھ پرے جناح اور چشمہ بیراج دریائے سندھ میں سیلابی دباؤ بڑھنے کے سبب ٹریفک کے لیے اچانک بند کردیے جاتے ہیں۔
میں پل پر ٹریفک جام ہونے کے سبب جیپ سے اتر گیا۔کیا خوبصورت منظر ہے۔دائیں جانب دریائے سندھ تنگ پہاڑی راستے سے آزاد ہو رہا ہے اور پل کے بائیں جانب یہی دریا تھکن اتارنے کے لیے کھلے میدان میں بازو کھولتے ہوئے دور تک پاؤں پسار رہا ہے۔
جب میں بلاخر صحیع سلامت پل کے پار اترا تو میں نے دیکھا کہ دریا چھلک رہا ہے اور اس کا پانی شہر میں جانے کے لیے پھر سے بے تاب ہے۔کالا باغ شہر میں متحرک ایک فلاحی این جی او کارواں کے دوستوں نے بتایا کہ گذشتہ ہفتے ہی چھ چھ فٹ دریا شہر میں گھس گیا تھا اور دو دن پہلے بڑی منت سماجت کے بعد نکلا ہے۔سڑکوں کے اطراف کیچڑ کی موٹی تہیں دریا کی رخصتی کی گواہی دے رہی تھی۔
اگر فضا سے دیکھا جائے تو اس مقام پر دریا غالبً ایک ایسی بڑی بوتل کی صورت نظر آئے گا جس کا پیندا پھیلتا ہی چلا جا رہا ہو۔اگر پل پر کھڑے ہو کر کالا باغ کی جانب دیکھا جائے تو پہاڑی کا وہ سرا موجود ہے جس پر سے لگ بھگ آٹھ سو برس پہلے وسطی ایشیا کی ترک سلطنت کے جری بادشاہ جلال الدین خوارزم شاہ نے خون کے پیاسے چنگیز خان کے لشکر سے جان بچانے کے لیے گھوڑے سمیت دریا میں چھلانگ لگا دی۔
چنگیز خان نے پہاڑیوں کے چنگل سے آزاد ہوتے دریا کو میدان میں پھیلتے ہوئے نگاہوں سے تولا اور منگول سپاہیوں کو خوارزم شاہ کے پیچھے کودنے سے یہ کہہ کر منع کر دیا ’ رک جاؤ۔یہ ترکستان کا کوئی دریا نہیں ہے‘۔
جب میں بلاخر صحیح سلامت پل کے پار اترا تو میں نے دیکھا کہ دریا چھلک رہا ہے اور اس کا پانی شہر میں جانے کے لیے پھر سے بے تاب ہے۔کالا باغ شہر میں متحرک ایک فلاحی این جی او کارواں کے دوستوں نے بتایا کہ گذشتہ ہفتے ہی چھ چھ فٹ دریا شہر میں گھس گیا تھا اور دو دن پہلے بڑی منت سماجت کے بعد نکلا ہے۔سڑکوں کے اطراف کیچڑ کی موٹی تہیں دریا کی رخصتی کی گواہی دے رہی تھی۔
دریائے سندھ کے پانی نے کالا باغ کے سبزیاں، جوار، باجرہ، چاول اور دالیں پیدا کرنے والے کھیتوں کو ریت ملی مٹی سے مہربند کردیا ہے۔ ماڑی انڈس، داؤد خیل اور پائی خیل میں ستر فیصد مکانات ختم ہوگئے ہیں۔
مگر میں کالا باغ سے گذر کر تحصیل عیسیٰ خیل جانا چاہ رہا ہوں یہ دیکھنے کے لیے کہ دریا نے اس علاقے کے ساتھ کیا سلوک کیا جہاں کبھی معروف ادیب پنڈت دیا شنکر نسیم کا گھر بھی آباد تھا۔اور ان سے بھی زیادہ مشہور ان کے والد تلوک چند محروم کی نظم آبِ سندھ کبھی جماعت ہفتم کے نصاب میں شامل تھی۔
اس زندگی سے ہم کو نہ دنیا ملی نہ دیں
تقدیر کا مشاہدہ کرتے گذر گئی
بس اتنا ہوش تھا مجھے روزِ وداعِ دوست
ویرانہ تھا نظر میں، جہاں تک نظر گئی
ہر موجِ آبِ سندھ ہوئی وقفِ پیچ و تاب
محروم جب وطن میں ہماری خبر گئی
دوپہر کا سوا ایک بج رہا ہے۔کالا باغ شہر کا کاروبار نمازِ جمعہ کے لیے بند ہو رہا ہے اور مجھے عیسیٰ خیل پہنچنے کے لیے مزید پچاس کلومیٹر ناپنے ہیں۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/08/100817_flood_diary_wusat_6.shtml
عیسیٰ خیل:آبی’ڈیزی کٹرز‘ سے بمباری
بی بی سی اردو کے وسعت اللہ خان پاکستان میں آنے والے سیلاب سے متاثرہ علاقہ جات کے دورے کا احوال ایک ڈائری کی صورت میں بیان کر رہے ہیں۔ پیش ہے اس سلسلے کی ساتویں کڑی جس میں وسعت اللہ خان میانوالی کے علاقے عیسٰی خیل جاتے ہیں۔
جمعہ تیرہ اگست، ساڑھے گیارہ بجے شب (عیسیٰ خیل)
حالانکہ میں گذشتہ انیس برس سے ریڈیو نشریات اور رپورٹنگ سے وابستہ ہوں۔ دو ہزار پانچ کے زلزلے سمیت اندرونِ و بیرونِ ملک انسانی و قدرتی بحرانی کیفیت اور دشوار گذار علاقوں کی تفصیل کاری کا بھی کسی حد تک تجربہ ہے۔ پر اس وقت لگ رہا ہے جیسے سیلاب باہر نہیں میرے اندر آگیا ہو۔ ہر شے تلپٹ سی ہے۔ بھوک مقررہ وقت کے بجائے یادادشت کی بنیاد پر لگتی ہے۔ آج کون سا دن اور تاریخ ہے۔ اس کی تصدیق کے لیے موبائل فون میں موجود کیلنڈر استعمال کررہا ہوں۔ دورانِ سفر مناظر اس قدر تیزی سے گذر رہے ہیں کہ دماغ کی ہارڈ ڈسک میں شائد کرپٹ ہو رہی ہے۔
بیّن ثبوت یہ ہے کہ میں گذشتہ روز کی ڈائری میں خدا جانےکس جھونک میں تلوک چند محروم کو جگن ناتھ آزاد کے بجائے پنڈت دیا شنکر نسیم کا والد لکھ گیا۔ کہاں انیسویں صدی کا مثنوی گو دیا شنکر نسیم اور کہاں بیسویں صدی کا شاعر جگن ناتھ آزاد۔۔لگتا ہے سیلاب یادداشت کو بھی بہائے لے جارہا ہے۔
بہرحال ساڑھے تین بجے کے لگ بھگ میں براستہ کالا باغ میانوالی کی تباہ حال تحصیل عیسیٰ خیل کے ہیڈ کوارٹر پہنچا۔ مقامی سوشل ویلفیر آفیسر محمد رزاق سے ایک دوست کے حوالے سےملاقات ہوئی (یہاں حوالہ بمعنی ریفرنس تصور کیا جائے ۔اس کا اس حوالے سے کوئی تعلق نہیں ہے جو میڈیا کی ہر رپورٹ، مضمون، گفتگو اور کالم کے ہر دوسرے جملے میں اندھا دھند استعمال ہورہا ہے)۔
اگرچہ دفتر کا سرکاری وقت ختم ہوچکا تھا۔ لیکن سوشل ویلفیر آفیسر رزاق صاحب عملے سمیت شدید گرمی میں لوڈ شیڈنگ بھگت رہے تھے۔کیونکہ وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف کسی بھی وقت عیسیٰ خیل میں اترسکتے ہیں۔ مگر گذشتہ تین دن سے وزیرِ اعلیٰ کے بجائے ان کی اطلاع آرہی تھی۔
تیس برس تک دریائے سندھ اپنی کچھار سے باہر نہیں نکلا۔ لوگ سمجھے کہ یہ رعشہ زدہ بڈھا بستر سے لگ گیا ہے۔ چنانچہ کچے کا ہر خاندان جس کے پاس آمدورفت کے لیے تیس سال پہلے چھوٹی موٹی کشتی ہوا کرتی تھی اس نے اسے بیچ باچ کر کار یا موٹر سائیکل خرید لی۔کیونکہ دریا کے متروک راستوں اور کچے میں بچھنے والی پکی سڑکوں پر کشتی چلنے سے رہی۔
عبدالرزاق سے معلوم ہوا کہ تحصیل کی آبادی تقریباً تین لاکھ ہے۔ لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ افراد کچے کے دریائی علاقے میں رہتے ہیں یا اس سے معاشی طور پر جڑے ہوئے ہیں۔ تیس برس تک دریائے سندھ اپنی کچھار سے باہر نہیں نکلا۔ لوگ سمجھے کہ یہ رعشہ زدہ بڈھا بستر سے لگ گیا ہے۔ چنانچہ کچے کا ہر خاندان جس کے پاس آمدورفت کے لیے تیس سال پہلے چھوٹی موٹی کشتی ہوا کرتی تھی اس نے اسے بیچ باچ کر کار یا موٹر سائیکل خرید لی۔کیونکہ دریا کے متروک راستوں اور کچے میں بچھنے والی پکی سڑکوں پر کشتی چلنے سے رہی۔
جب کشتی کو موٹر سائیکل سے بدلنے والی نسل پر گذشتہ ماہ کے آخر میں دریا بادشاہ نے وار کیا تو تبدیل شدہ عادات و اطوار والوں سے یہ وار نہ سنبھل سکا اور بیشتر بڑی مشکل سے جان بچا کر پکے کی طرف آسکے۔ اس ناگہانی کے بعد عیسیٰ خیل کی تین سرکاری عمارات میں ریلیف کیمپ بنائے گئے۔ لیکن سیلاب زدگان ان کیمپوں کی جانب دیکھتے ہی سمجھ گئے کہ تلوں میں تیل نہیں ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ کیمپوں میں تیس پینتیس مصیبت زدگان سے زیادہ نہیں رہ پائے۔ زیادہ تر نے سرکار پر تکیہ کرنے کے بجائےعزیز و اقربا سے پناہ مانگی۔
البتہ علاقے کے سابق ایم پی اے عبدالرحمان نیازی المعروف ببلی خان اور ان کی ہمشیرہ بیگم ذکیہ شاہنواز جو وزیرِ اعلیٰ کی مشیر بھی ہیں ان کی موجودگی اور اثرو رسوخ کا یہ فائدہ ہوا کہ متاثرینِ عیسیٰ خیل کو کم ازکم خشک راشن اچھا بھلا مل گیا۔مگر ٹینٹ تقریباً سو کے لگ بھگ ہی ہاتھ آسکے۔
ببلی خان اس خانوادے کے موجودہ وارث ہیں جو مغلیہ دور سے علاقے کی سیاست و فیصلوں میں پوری طرح دخیل ہے۔
تیسری مار عیسیٰ خیل کے تین پہاڑی نالوں نے ماری۔ ایک نالہ تو پل ہی ساتھ لے گیا۔ جبکہ چچالی کا نالہ جو جولائی کے تیسرے ہفتے تک سو فٹ کی چوڑائی میں بہہ رہا تھا ۔اس وقت ڈھائی ہزار فٹ چوڑائی میں دندنا رہا ہے۔
عام سے مکانوں، گرد آلود بازار و گلیوں اور زندگی کے ساتھ بس گذارہ کرنے والی شکرمند مقامی آبادی اس قلعہ نما وسیع و عریض حویلی کے اردگرد آباد ہے جہاں ڈھائی صدیوں تک ان سے مشاورت کے بغیر ان کے بارے میں فیصلے صادر ہوتے رہے۔ لیکن دورِ جمہور نے اب اس قلعہ نما حویلی کے دروازے ہر خاص و عام کے لیے کھول دیے ہیں۔ اگر حویلی کی عظمتِ رفتہ کی کوئی گواہ بچی ہے تو وہ بڑے بڑے کمروں کی منقش چوبی چھتیں اور دیواروں پر بلیک اینڈ وائٹ تصاویر کی شکل میں آویزاں تاریخ ہے۔ یہ سب کچھ سنہ چالیس، پچاس اور ساٹھ کے فرنیچر کے ساتھ اور بھی بھلا لگتا ہے۔
ببلی خان کے ساتھ دورانِ سفر خاصا کچھ معلوم ہوا ۔مثلاً یہی کہ تحصیل عیسیٰ خیل پر چہار طرف سے قدرت کی مار پڑی۔ دریائے سندھ نے کچے کے علاقے کی مزاج پرسی کی۔ دریائے کرم جو درہ تنگ کے مقام پر خیبر پختون خواہ سے عیسیٰ خیل میں داخل ہوتا ہے اس نے چوراں والا ( سرکاری نام شریف آباد) اور مسیت والا سمیت تین دیہاتوں کو برابر کردیا اور اب ان دیہاتوں کی آبادی ٹھوڑی تلے ہاتھ دئیے اپنے ہی نہ بہہ جانے والے ملبے کو پانی سے خالی آنکھوں سے گھور رہی ہے۔
چوراں والا گاؤں میں جاکر محسوس ہوا جیسے دریائے کرم نے آبی ڈیزی کٹرز سے کارپٹ بمباری کی ہو۔
تیسری مار عیسیٰ خیل کے تین پہاڑی نالوں نے ماری۔ ایک نالہ تو پل ہی ساتھ لے گیا۔جبکہ چچالی کا نالہ جو جولائی کے تیسرے ہفتے تک سو فٹ کی چوڑائی میں بہہ رہا تھا ۔اس وقت ڈھائی ہزار فٹ چوڑائی میں دندنا رہا ہے۔
جب کوئی کسان شکوہ کرتا تھا کہ پانی اپنے ساتھ زمین لے گیا تو میں بھی دیہی ماحول سے نابلد نیم خواندہ شہری تہذیب کا رکن ہونے کے ناطے سمجھتا تھا کہ غالباً کسان صاحب یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ سیلاب ان کی فصلیں لے گیا۔ بھلا پانی زمین کیسے لے جاسکتا ہے۔ لیکن جب میں نے چچالی کے پہاڑی نالے کی تباہ کاری بچشم دیکھی تب معلوم ہوا کہ زمین کا غائب ہو جانا کیا ہوتا ہے۔ سو فٹ چوڑائی میں بہنے والے چچالی نے جب اپنی زات دکھائی تو وہ دونوں طرف سے سات سات فٹ گہرائی تک سینکڑوں کنال زرعی زمین یوں کاٹ کر لے گیا جیسے کسی بہت بڑی تلوار سے دھرتی کا سر قلم کردیاجائے۔
جب چچالی کی جلادی مار سہنے والے عیسیٰ خیلوی کسان ایک ساتھ بولنے کی کوشش کررہے تھے تو میں نے ایک سے پوچھا کہ آپ کی کتنی زمین ہے۔ کہنے لگا چار تاریخ کو جب میں سویا تو ڈھائی سو کنال تھی۔ صبح اٹھا تو ڈیڑھ سو تھی۔
جب چچالی کی جلادی مار سہنے والے عیسیٰ خیلوی کسان ایک ساتھ بولنے کی کوشش کررہے تھے تو میں نے ایک سے پوچھا کہ آپ کی کتنی زمین ہے۔ کہنے لگا چار تاریخ کو جب میں سویا تو ڈھائی سو کنال تھی۔ صبح اٹھا تو ڈیڑھ سو تھی۔
صرف زمین بہا لے جانے سے پہاڑی نالوں کی حسرتیں پوری نہیں ہوئیں۔جس کھیت نے ان کے ساتھ جانے سے انکار کیا اسے سزا کے طور پر ریت کی چادر اوڑھا دی گئی۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ عیسیٰ خیل کی تیس فیصد کے لگ بھگ زمین پہاڑی نالوں کی لائی گئی ریت کی دو سے تین فٹ تہہ کے نیچے دبی ہوئی ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ولن ہیروئن کو کسی سبب اٹھا کر نہیں لے جاسکتا تو مزاحمت سے طیش کھا کر منہ پر تکیہ دے دیتا ہے۔
جب بارش نے دیکھا کہ سندھو، کرم اور پہاڑی نالے مل کر عیسیٰ خیل کی طبیعت سے دھنائی کررہے ہیں تو اس نے بھی اپنا حصہ ڈال دیا اور دو چار مزید جڑ ڈالے۔ اس کے نتیجے میں اب عیسیٰ خیل کے غربت زدگان دعا مانگ رہے ہیں کہ موسم جوں کا توں ہی رہے۔ کیونکہ دھوپ تو بے وقوف ہوتی ہے۔ جیسے ہی نکلے گی سیلن زدہ دیواریں اور چھتیں چٹخاتی چلی جائے گی۔
میں روزہ کھلنے کے ساتھ ہی براستہ لکی مروت بذریعہ انڈس ہائی وے ڈیرہ غازی خان کی طرف نکلنا چاہ رہا تھا۔ ببلی خان نے کہا کہ ایک تو راستہ غیر محفوظ ہے اور موسم کے بارے میں غلط انداز امکانات بھی بھرپور ہے۔ لہٰذا ابھی نکلنے کا جذباتی فیصلہ کرنے کے بجائے سہری کے بعد ٹھنڈے دماغ کے ساتھ نکلیے گا۔
ساڑھے گیارہ بج رہے ہیں۔میں صحن میں سفید چادر بچھی بان کی چارپائی پر لیٹا ہوں۔ عیسیٰ خیل کا آسمان تاروں سے بھرا ہوا ہے۔ یہاں کے لوگ شاید اس آسمان کی قدر نہیں جانتے۔کیونکہ وہ کراچی میں نہیں رہتے۔جہاں رات کو مصنوعی روشنیوں سے آلودہ آسمان پر تارے تک نظر نہیں آتے۔
تاروں بھرا آسمان دیکھنے کے لیے خالص سیاہ رات درکار ہے۔ اور کراچی میں کوئی بھی شے بلیک اینڈ وائٹ نہیں۔ صرف گرے ہے۔۔۔۔اب آنکھیں بھاری ہورہی ہیں ۔۔۔میں اس اترتی ہوئی رات سے شاید چار گھنٹے کی نیند کا قرض لینے میں کامیاب ہو چکا ہوں ۔۔۔۔۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/08/100819_flood_diary_wusat_7.shtml
آج یومِ آزادی ہے !
بی بی سی اردو کے وسعت اللہ خان پاکستان میں آنے والے سیلاب سے متاثرہ علاقہ جات کے دورے کا احوال ایک ڈائری کی صورت میں بیان کر رہے ہیں۔ پیش ہے اس سلسلے کی آٹھویں کڑی جس میں وسعت اللہ خان میانوالی کے علاقے عیسٰی خیل سے ڈیرہ غازی خان جاتے ہیں۔
سنیچر چودہ اگست (ڈیرہ غازی خان)
ویسے تو میں گھوڑے بیچ کر سونے کا عادی ہوں لیکن فیلڈ ٹرپ کے دوران تین چار گھنٹے کی نیند بھی کافی ہوتی ہے۔ ٹوٹکہ یہ ہے کہ آنکھیں بوجھل ہوتے ہی میں دماغ سے درخواست کرتا ہوں کہ بھائی اتنے بجے جاگ جانا۔خانہ بدوشی میں دیر سے جاگو گے تو پھر تمہیں ہی دیر سے سونا پڑے گا۔چنانچہ نوے فیصد مواقع پر دماغ دل کی تساہل پسندی خاطر میں لائے بغیر کسی وضع دار جاگیردار کی طرح مقررہ وقت پر جسم کو سگنل بھیجنا شروع کردیتا ہے۔
صبح تین بجے عیسیٰ خیل کے تاروں بھرے آسمان تلے بھی یہی ہوا اور آنکھ کھل گئی۔دور سے ڈھول اور شہنائی کی آواز آ رہی تھی۔کبھی قریب آجاتی تو کبھی ہوا کی لہریں دور لے جاتیں۔سحری کے لیے عیسیٰ خیلویوں کو جگایا جا رہا تھا۔
چار بجے گاڑی سڑک پر تھی۔بیس منٹ بعد ہم تنگ درہ پار کرکے دریائے کرم کا پل عبور کر خیبر پختون خواہ کے لکی مروت کی سناٹا آلود سڑک سے گذر رہے تھے۔صرف مساجد کے اردگرد انسانی نقل و حرکت جاری تھی۔لوگ سحری کے بعد نمازِ فجر کے لیے ٹولیوں کی صورت میں چل رہے تھے۔ایک جگہ پندرہ بیس ریش بردار سائے بس سے اتر کر قطار میں جا رہے تھے۔ہر ایک کے کاندھے پر سفری بیگ تھا۔غالباً یہ تبلیغی جماعت تھی۔
میرا جی چاہا کہ ان لوگوں سے تھوڑی سی بات چیت کروں لیکن دماغ نے ہاتھ آہستگی سے دباتے ہوئے کہا آرام سے بیٹھے رہو یہ لکی مروت ہے۔موجودہ حالات میں جانے کون کیا سمجھے۔
شہر سے نکلتے ہی سڑک کے دونوں اطراف کا وسیع نیم صحرائی علاقہ صبح کے جھٹپٹے میں واضح تر ہوتا جا رہا تھا۔جب گاڑی انڈس ہائی وے تک پہنچی تو روزِ روشن اپنی معمول کی نوکری پر آچکا تھا۔
کچھ دیر بعد یارک کا قصبہ دکھائی دیا۔ہائی وے کے دونوں جانب بنے کچے مکانات مقامی معیشت کا تعارف تھے۔دور تک بنجر میدانوں میں پانی تھا۔شائد بارش کا یا شائد سیلاب کا۔ یارک سے زرا سا باہر نکلتے ہی دیکھا کہ دائیں جانب ایک بڑے سے جوہڑ میں سبزی مائل پانی ہے۔کچھ مرد ، عورتیں اور بچے نیلے رنگ کے بیرل اس پانی سے بھر رہے ہیں اور کچھ گدھا گاڑیوں پر لاد رہے ہیں۔گاڑی رک گئی میں نیچے اترا اور کیمرے کی کلک کلک شروع ہوگئی۔چند یارکی باشندے میری طرف بڑھے۔ہاتھ ملایا
آپ کہاں سے آرہے ہیں
عیسیٰ خیل سے
آپ تصویریں کھینچتے ہیں۔
جی میں تصویریں کھینچتا ہوں۔
کیا فائدہ اس کا۔سب تصویریں کھینچ کر چلے جاتے ہیں۔صاف پانی پھر بھی نہیں ملتا۔
اس مکالمے کے دوران ہی فیصل کریم کنڈی اور مولانا فضل الرحمان جیسی تصاویر ذہن کے پردے پر فلیش کی طرح کوندیں اور غائب ہوگئیں۔کائنات کو چکن تکہ کھلانے کا مطالبہ کرنے والے یہ صاحبانِ نفس اپنے علاقے کے لوگوں کو صاف پانی کا نلکہ بھی نہ دلوا سکے۔
اگر انڈس ہائی وے پر واقع قصبے کے لوگ جوہڑ کا پانی پینے اور دھونے کے لیے استعمال کر رہے ہیں تو سڑک سے پرے کے علاقے کیسے ہوں گے۔پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ اس علاقے میں انتہا پسندی بڑھ رہی ہے۔ہوسکتا ہے اس علاقے میں انتہا پسندی شائد اسی جوہڑ سے شروع ہوئی ہو۔۔۔اب تو یہی ہونا باقی ہے کہ اللہ تعالی خود نیچے اترے اور اس علاقے سے الیکشن لڑے۔ معافی چاہتا ہوں ۔زرا سا جذباتی ہوگیا۔
اگر انڈس ہائی وے پر واقع قصبے کے لوگ جوہڑ کا پانی پینے اور دھونے کے لیے استعمال کر رہے ہیں تو سڑک سے پرے کے علاقے کیسے ہوں گے۔پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ اس علاقے میں انتہا پسندی بڑھ رہی ہے۔ہوسکتا ہے اس علاقے میں انتہا پسندی شائد اسی جوہڑ سے شروع ہوئی ہو۔۔۔اب تو یہی ہونا باقی ہے کہ اللہ تعالی خود نیچے اترے اور اس علاقے سے الیکشن لڑے۔ معافی چاہتا ہوں ۔زرا سا جذباتی ہوگیا۔
گاڑی آگے بڑھ گئی۔مرر میں یارک، اس کا جوہڑ اور گاڑی کا تعاقب کرنے والی آنکھیں مختصر ہوتے ہوتے غائب ہوگئیں اور کھڑکی سے آنے والی ہوا بھی آنکھوں کی نمی ساتھ لے گئی۔ڈیرہ اسماعیل خان کی شہری حدود شروع ہوچکی ہیں۔بائیں جانب سیلابی پانی نظر آ رہا ہے۔
مگر ہم ڈیرہ اسماعیل خان شہر میں داخل نہیں ہوں گے۔انڈس ہائی وے پر ہی رہیں گے۔ایک جگہ ایک مرد نے گود میں بچہ اٹھا رکھا ہے اور ایک چادر پوش خاتون برابر میں کھڑی ہیں۔ہاتھ کے اشارے پر گاڑی رک گئی۔
ہمیں دریا خان جانا ہے۔
جی میں دریا خان نہیں ڈی جی خان جا رہا ہوں۔
پھر آپ ہمیں پل والے چوک تک چھوڑ دیں۔آج چودہ اگست کی وجہ سے گاڑیاں دیر سے چلیں گی۔
راستے میں اس نامعلوم مسافر نے پوچھا۔ڈی جی خان کیسے پہنچیں گے۔سیلاب سے پل ٹوٹا ہوا ہے۔نہ کوئی گاڑی چھ دن سے جارہی ہے نہ آرہی ہے۔
وہ مسافر اور اس کی ہمراہی تو اترگئے لیکن مجھے دوراہے پر چھوڑ گئے۔پل ٹوٹا ہوا ہے ؟ کیسے پہنچوں گا ؟
گاڑی دوڑتی رہی اور اگلے ایک گھنٹے تک دوڑتی رہی۔راستے میں سڑک کے دونوں طرف بیسیوں مال بردار ٹرک اور ٹریلرز کھڑے ہیں۔مجھ میں تصدیق کی ہمت نہیں ۔جانتا ہوں کہ کیوں کھڑے ہیں۔بلاخر وہ پل آہی گیا جسےدو گاڑیاں ترچھی کھڑی کرکے بند کردیا گیا تھا۔پل کے نیچے واہووا کا پہاڑی نالہ جسے مقامی زبان میں واہووا رود کوہی کہتے ہیں چنگھاڑتے پانی سے لبریز تھا۔
یہ رود کوہی پل کے دوسری جانب کے کچھ ستون اپنے ساتھ لے گئی اور اب نیشنل ہائی وے کا عملہ بھاری پتھر ڈال کر کوئی راہ نکالنے کی کوشش کر رہا ہے۔گذشتہ روز جو پتھر ڈالے گئے تھے رود کوہی انہیں بھی منتشر کرگئی۔
میرے دماغ نے متبادلات کی شاہراہ پر دوڑ لگا دی۔واپس جاؤ، ڈیرہ اسماعیل خان سے بکھر اور پھر میانوالی ملتان روڈ پر چڑھ کر ملتان پہنچو اور وہاں سے کراچی روانہ ہوجاؤ۔دل نے کہا رکے رہو۔صرف دس پندرہ فٹ ٹوٹے ہوئے پل کو دیکھ کر پریشان ہونا ٹھیک نہیں۔بس رکے رہو میں کچھ انتظام کرتا ہوں۔
اور پھر انتظام ہوگیا۔ایک موٹر سائیکل سوار سے پوچھا آگے جانے کے لیے کیا کریں۔کہنے لگا دائیں جانب کچے میں اتر جاؤ۔دو کلومیٹر دور سائفن ہے۔وہاں ہوسکتا ہے کہ پانی کی مقدار کم ہو۔رود کوہی پار کرلینا۔
میں سوچنے لگا کہ آرمی کے پاس تو ایمرجنسی میں لوہے کے عارضی پل تعمیر کرنے کی مکمل استعداد ہوتی ہے۔پھر بھی پاکستان کو ملانے والی اہم ترین شاہراہ چھ روز سے صرف ایک پل کے دس فٹ ٹکڑے کے ہاتھوں کیوں یرغمال ہے۔ان ٹرکوں میں کروڑوں کا مال لدا ہوا ہوگا۔ویسے بھی ہنگامی حالات میں لوگوں تک رسد پہنچانے اور ریلیف اینڈ ریسکیو کے آپریشن کے لیے بڑی شاہراہوں کو ہر حالت میں کھلا رھنا چاہیے۔پھر میں نے سوچنا ملتوی کردیا۔کیونکہ بعض سوالات کے کبھی تسلی بخش جوابات نہ ملتے ہیں نہ ملیں گے۔
ایسا ہی کیا گیا۔سائفن پر کچھ ٹریکٹر کھڑے ہوئے تھے۔ایک سے پوچھا کتنے میں پار کراؤگے۔کہنے لگا ہزار روپے لوں گا۔دوسرے نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور ایک طرف لے گیا۔یہ بڑا لالچی ہے۔میں آپ سے صرف پانچ سو روپے لوں گا اور گاڑی دوسری طرف پہنچا دوں گی۔ پھر جیپ ٹریکٹر کے پیچھے ایک موٹی سی دھاتی رسی کے ساتھ جوڑ دی گئی۔اس دوران رود کوہی پار کرانے کے لیے ہزار روپے مانگنے والا پانچ سو میں سودا پٹانے والے ناخدا کو پشتو میں برا بھلا کہتا رہا لیکن پانچ سو والے نے کوئی جواب دینے کے بجائے وقتی طور پر خود کو بہرا کر لیا۔
ایک جھٹکے سے ٹریکٹر نے ہماری گاڑی کو کیچڑ سے نکالا اور سائفن کے پکے راستے پر پوری قوت سے ٹریکٹر کو زگ زیگ دوڑانے لگا تاکہ رود کوہی کا تیز رفتار پانی بہا کر نہ لے جائے ۔دس منٹ کے اس سفر میں ہر لمحے محسوس ہورہا تھا کہ ہم بیچ میں رک جائیں گے کیونکہ پانی کا دباؤ ٹریکٹر کے پیچھے بندھی جیپ کو مستقل مخالف سمت میں اپنی جانب دھکیل رہا تھا۔لیکن مرحلہ طے ہوگیا۔اور گاڑی پھر انڈس ہائی وے پر دوڑنے لگی۔کراچی سے آنے والے مال بردار ٹرک سینکڑوں کی تعداد میں ایک طویل لائن بنائے ہوئے تھے۔
میں سوچنے لگا کہ آرمی کے پاس تو ایمرجنسی میں لوہے کے عارضی پل تعمیر کرنے کی مکمل استعداد ہوتی ہے۔پھر بھی پاکستان کو ملانے والی اہم ترین شاہراہ چھ روز سے صرف ایک پل کے دس فٹ ٹکڑے کے ہاتھوں کیوں یرغمال ہے۔ان ٹرکوں میں کروڑوں کا مال لدا ہوا ہوگا۔ویسے بھی ہنگامی حالات میں لوگوں تک رسد پہنچانے اور ریلیف اینڈ ریسکیو کے آپریشن کے لیے بڑی شاہراہوں کو ہر حالت میں کھلا رھنا چاہیے۔پھر میں نے سوچنا ملتوی کردیا۔کیونکہ بعض سوالات کے کبھی تسلی بخش جوابات نہ ملتے ہیں نہ ملیں گے۔
ٹوٹے ہوئے پل سے لگ بھگ بیس کلومیٹر آگے ٹبی قیصرانی پہنچ کر معلوم ہوا کہ ڈیرہ غازی خان کا ضلع اس وقت صرف کراچی جانے والے راستے پر تکیہ کر رہا ہے۔تین اطراف بند ہیں۔ملتان سے جوڑنے والا غازی گھاٹ کا راستہ زیرِ آب ہے۔ژوب سے براستہ سخی سرور آنے والا پہاڑی راستہ بارشوں کا مقبوضہ ہے اور خیبر پختون خواہ کی جانب سے آنے والی انڈس ہائی وے واہووا کے کھر بزدار برج کی یرغمال ہے۔
گاڑی میں ایندھن کا حال بتانے والے میٹر کی سوئی بالکل نڈھال ہوچکی تھی۔راستے بند ہونے کے سبب پٹرول پمپس سنسان تھے۔ٹبی قیصرانی کے بعد ایک پٹرول پمپ کچھ زندہ لگ رہا تھا۔
ڈیزل سے ٹنکی فل کردو
فل نہیں کروں گا۔صرف پانچ سو روپے کا ڈیزل ملےگا۔
مگر ہم تو رپورٹنگ کر رہے ہیں۔پانچ سو کے ڈیزل سے کیا ہوگا۔
اچھا آپ رکو میں سیٹھ سے پوچھ کر آتا ہوں۔ اور پھر ہماری ٹنکی فل کردی گئی۔
ہماری جیپ کے پیچھے جو گاڑی تھی اس کے ڈرائیور کی آنکھیں روشن ہوگئیں مگر جب پمپ والے نے بتایا کہ پٹرول نہیں ہے صرف کچھ ڈیزل بچا ہوا ہے تو یہ آنکھیں پھر بجھ گئیں۔ ڈرائیور نے سرائیکی میں زیرِ لب حکومت کی ماں بہن سے اپنا ناطہ جوڑنے کی بے سود سی کوشش کرتے ہوئےگاڑی ریورس گیئر میں ڈال دی ۔
چالیس کیلو میٹر بعد تونسہ آگیا۔یہاں عمر رسیدہ مگر جواں سال پروفیسر خان محمد سے ملاقات ہوئی۔جنہوں نے نوجوانوں کے ایک پورے گروہ کو ریلیف اور ریسکیو کے کام میں مصروف کردیا ہے۔مقامی ڈاکٹر ، کاروباری، ٹرنسپورٹر، سماجی کارکن اور چائے خانوں میں وقت ضائع کرنے والے لڑکے بالے سب کی زندگی میں سیلاب اچانک کچھ مقصدیت لے آیا ہے۔چندہ اور ادویات جمع کرنے سے لے کر خشک راشن اکھٹا کرنے اور اسے متاثرین تک پہنچانے سمیت جتنا ہوسکتا ہے ہورہا ہے ۔
اسی ہجوم میں جھوک بودو گاؤں کے محمد افضل قیصرانی بھی دریافت ہوگئے۔جو کام شہر میں پروفیسر خان محمد کا گروپ کررہا ہے۔وہی کام پانچ چھ ہزار نفوس پر مشتمل جھوک بودو کا پورا گاؤں کر رہا ہے۔گذشتہ دو ہفتے سے اس گاؤں کا معمول بدلا ہوا ہے۔روزانہ مسجد کے زریعے رسد کی مقدار اور وقت کا اعلان ہوتا ہے کہ اتنے بجے گاڑی سیلاب زدگان کے لیے خوراک لے کر روانہ ہوگی۔آج لگ بھگ دو ہزار روٹیاں اور سالن کی ضرورت ہے۔اور آہستہ آہستہ سامان مرکزی چوک اور قریبی مدرسے میں جمع ہونے لگتا ہے۔
کوئی دس روٹیاں اور سالن کی پتیلی اٹھائے آ رہا ہے۔کوئی بیس کوئی چالیس روٹیاں بھجوا رہا ہے۔اور کوئی بکرا لے کر آرہا ہے تاکہ مدرسے والے اس کا سالن بنا دیں۔فی الحال عید تک یہ کام جاری رہے گا۔عید کے بعد بھی اگر حالات دگرگوں رہے تو جھوک بودو والے بھی تھکنے والے نہیں۔
تونسہ سے ستر کلومیٹر کی زقند لگانے کے بعد گاڑی ڈیرہ غازی خان میں داخل ہوئی۔ یقین نہیں آیا کہ یہ وہی شہر ہے جہاں انگریزوں کی ٹاون پلاننگ کے طفیل چوڑی گلیاں اور سیدھے صاف بازار تھے۔میرے زہن میں چار برس پہلے والا ڈیرہ غازی خان تھا۔جیسے ہی سٹی سینٹر کو دیکھا زہن بھک سے اڑ گیا۔شہر کیچڑ میں لت پت ادھڑا پڑا تھا۔اس شہر کو سیلاب نے نہیں بلکہ سیلاب آنے سے بہت پہلے اسکے اپنوں نے ہی مار ڈالا۔
اس وقت دوپہر ڈھل رہی ہے۔گرمی کی شدت برقرار ہے۔اب میں نہاؤں گا ۔آرام کروں گا اور رات کو پھر ڈائری لکھوں گا۔ہوٹل کے کمرے میں رکھے ٹی وی سیٹ پر ہر چینل سبز ہورہا ہے۔آج چودہ اگست ہے۔یومِ آزادی ؟؟؟
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/08/100820_flood_diary_8.shtml
Full Coverage
http://www.bbc.co.uk/urdu/indepth/cluster_wusat_flood_diary.shtml
سرائیکستان دے تریہویہ ضلعے ہک ڄغرافیائی خطہ، وادی سندھ دا بالائی میدان ، ہے۔ اے زمانہ قدیم کنوں ہک تاریخی تے ثقافتی اکائی اے۔ آثار قدیمہ گواہ ہن۔ پاکستان دے آئین دے تحت صوبائی خود مختیاری ضروری چیز اے۔ کوئی صوبہ برتر کائنی۔ لیکن موجودہ حالات وچ پنجاب دی برتری اے۔ تریہویہ ضلعیاں دے سرائیکستان بݨݨ نال صوبیاں وچ توازن پیدا تھیسی۔ سرائیکی سندھی پشتون تے بلوچاں دا استحصال مکسی۔ اگر بہاولپور صوبہ بݨدے تاں ول توازن مزید خراب تھی ویسی۔ اے اصل وچ ملک دوست تے ملک دشمن قوتاں دا مقابلہ اے۔.